حیرت انگیز، ناقابل یقین اور تاریخی ٹرننگ پوائنٹ ہے یہ چناؤ!

یہ تو کمال ہی ہوگیا جنہیں مودی کی ہوا نہیں دکھی اب مودی کی آندھی میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ دیش واسیوں نے تشٹی کرن، جاتیواد اور سماجک سمی کرنوں کو نکارتے ہوئے ایک جٹ ہوکر وکاس کے لئے، بہتر مستقبل کیلئے نریندر مودی کو ووٹ دیا۔ایگزٹ پول بھی غلط ثابت ہوئے۔ جتنی سیٹیں عام طور پر بھاجپا کو دکھائی جارہی تھیں اس سے بھی زیادہ آئیں۔ ٹائمس ناؤ جیسے ٹی وی چینل جس نے بھاجپا کو 249 ، کانگریس کو148 اور دیگر کو 146 سیٹوں کی بھوشوانی کرکے جنتا کو گمراہ کیا انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ سب سے قریب ایک بار پھر نیوز24 ٹوڈے چانکیہ ثابت ہوا جس میں بھاجپا 340، کانگریس کو70 اور دیگر کو133 سیٹیں دی گئی تھیں۔ نومبر کے دہلی اسمبلی انتخابات کے وقت بھی ان کا ہی سروے صحیح ثابت ہوا تھا۔عام طور پر سوائے ٹائمس ناؤ۔ او آر جی کے باقی سبھی سروے صحیح ثابت ہوئے۔تین دشک بعد نریندر مودی کی لہر پر سوا بھاجپا نے اکیلے دم پر 272+ سیٹوں سے آگے پہنچنے کا کرشمہ کردکھایا۔ پردھان منتری امیدوار کے طور پر مودی نے بڑودہ سیٹ پر 5لاکھ70 ہزار ووٹ سے جیت کر بھارتیہ چناؤ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔وارانسی سے بھی ان کی جیت شاندار رہی انہوں نے اپنے قریبی امیدوار اروند کیجریوال کو3 لاکھ 70 ہزارسے زیادہ ووٹوں سے ہرایا۔ پی ایم امیدوار کے طور پر پی وی نرسمہا راؤ نے ناندیال سیٹ سے5 لاکھ80 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا تھا وہ عام چناؤ نہیں بلکہ اُپ چناؤ تھے۔ دیش کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس آدھا درجن راجیوں میں تو کھاتہ ہی نہیں کھول سکی اور اس کے زیادہ تر بڑے لیڈر چناؤ میدان میں ہار گئے۔ خود راہل گاندھی کو اپنی سیٹ جیتنے میں پسینے چھوٹ گئے اور اب تک کے سب سے خراب پردرشن میں کانگریس کو اہم مخالف پارٹی کی حیثیت بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔عالم یہ ہے کہ اب تک سرکاریں گٹھ بندھن سے بنتی تھیں لیکن پہلی بارحسب اختلاف کو شکل دینے کے لئے گٹھ بندھن کی ضرورت پڑے گی۔گٹھ بندھن کی بات کریں تو 30 سال بعد پہلی بار بھارت کی جنتا نے کسی ایک دل کو صاف اکثریت دی ہے۔ انہوں نے گٹھ بندھن کی راجنیتی کے نقصان دیکھ لئے ہیں اس لئے بڑی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے بھاجپا کو صاف اکثریت دی ہے تاکہ اس کو گڈ گورننس میں کوئی دقت نہ آئے۔اس چناؤ میں جاتی اور سماجک بنیاد پر بنے کئی قلعہ بھی گر گئے ہیں۔ بسپا، درمکھ اور رالود جیسے دل تو اپنا کھاتہ بھی نہیں کھول سکے۔ ’آپ‘ پارٹی جو بہت کود رہی تھی، کو مشکل سے 4 سیٹیں ملی ہیں اور ووٹ فیصد بھی2.2 ہے جس سے اس کا قومی پارٹی کا سپنا بھی چکنا چور ہوگیا۔ دہلی میں جہاں نومبر میں کیجریوال اینڈ کمپنی کو شاندار جیت ملی تھی ،کو اس بار دھول چاٹنی پڑی اور ساتوں سیٹوں پر اس کا سوپڑا صاف ہوگیا۔وہیں بڑبولے کمار وشواس تو اپنی ضمانت تک نہیں بچا سکے۔ کیجریوال اینڈ کمپنی کے سیاسی مستقبل پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ نریندر مودی نے ایک ہی جھٹکے میں دونوں کانگریس اور ’آپ‘ پارٹی کو اس کی اوقات دکھادی۔ عام چناؤ کے دوران پوری سیاست کو خود پر مرکوز رکھنے میں کامیاب رہے مودی نے قومی سطح پربناکسی دباؤ میں آئے آگے بڑھنے کے اپنے پرشاسن کے ایجنڈے کا سنکیت بھی دے دیا ہے۔ اپنے سخت فیصلوں اور کسی کے دباؤ میں نہ آنے کی پہچان والے مودی کوجنادیش بھی کھل کر کام کرنے کا ملا ہے۔ اپنے نام کے بوتے پر اکثریت سے قریب ایک درجن زیادہ سیٹیں یعنی 282 لیکر آئے مودی کے لئے نہ پارٹی میں کسی سے جھکنے کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی گٹھ بندھن کی حمایت کا ان پر دباؤ ہوگا۔ ’اب کی بار مودی سرکار‘۔’یہ دل مانگے مور‘ اور ’کانگریس مکت بھارت‘ جیسے نعروں کو ووٹروں نے حقیقت میں بدل دیا ہے۔پورے دیش کی امید اور توقعات کا پہاڑ مودی کے لئے چنوتی ہے۔ عام جنتا صرف اتنا چاہتی ہے کہ بجلی، پانی، سڑک، تعلیم، صحت اور معاشی ترقی پر ٹھوس نیتیاں ہوں۔دیش کے نوجوان طبقے نے جم کر مودی کو ووٹ دیا ہے۔ ان کو اپنے بہتر مستقبل کی امید ہے۔انہیں روزگار ملنے کی امید ہے۔ معاشی ترقی کے نام پرگذشتہ10 سالوں سے بے روزگاری اور مہنگائی کی تکلیف پر جھوٹے وعدے ، مہنگائی کم کرنے کے لئے تاریخ پر تاریخ دیتی آرہی یوپی اے سرکار نے نوجوانوں میں مایوسی کا ماحول بنادیا تھا۔ اب انہیں اس ماحول میں امید کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے۔ مودی نے اپنے پرچار میں مہنگائی، بے روزگاری ، بھرشٹاچار، وکاس، جیسے مدعوں پر فوکس کیا جس کی بنیاد پر عوام نے ریکارڈ ووٹنگ کی۔ عوام اس بات کیلئے بھی بدھائی کے حقدار ہیں کے انہوں نے تیسرے مورچے کے آدھار کو نکاردیا ہے۔اگنی پریکشا میں ہمیں امت شاہ کی محنت کور نہیں بھولنا چاہئے۔گذشتہ سال جب مئی میں امت شاہ کو یوپی کا پربھاری بنایا گیا تھا تب بھاجپا پوری طرح خیموں میں بٹی ہوئی تھی۔ 2009ء میں بھاجپا کی اترپردیش میں کل 10 سیٹیں تھیں۔ شاہ نے نہ صرف گاؤں گاؤں میں زمینی کاریہ کرتاؤں کی فوج کھڑی کی بلکہ یوپی میں صحیح وقت پر اثر دار مدعے اٹھائے۔
مثال کے طور پراعظم گڑھ کو آتنکی گڑھ، پشچمی اترپردیش میں اپمان کا بدلہ لو بٹن دباکر، نے اپنا رنگ دکھا دیا۔کانگریس کی حکومت والے راجیوں میں بھی مودی کی لہر چلی۔ ہریانہ ، کرناٹک و پشچمی بنگال جیسے راجیوں میں بھاجپا کی جیت شاندار ہے۔ کانگریس کی اینٹی انکمبینسی ووٹ جو ’آپ‘ کو ملنا تھا وہ اس بار بھاجپا کو مل گیا۔موجودہ لوک سبھا میں بھاجپا کے116 ممبر ہیں اور اس کی ووٹ کی حصہ داری 18.8 فیصد تھی۔ کانگریس 28.53 فیصد ووٹ حاصل کر206 ممبروں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی تھی۔اس بار بھاجپا کو 31.4 فیصد ووٹ اور 282 سیٹیں ملیں جبکہ کانگریس کو صرف 19.5فیصد ووٹ ملا اور وہ44 سیٹوں پر سمٹ گئی۔کانگریس صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہل گاندھی نے ہار کی ذمہ داری لیتے ہوئے کہا کہ جن آدیش کانگریس کے خلاف ہے۔
آج سے ایک سال پہلے تک شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ گجرات کے ایک عام سے قصبے میں جنم لینے والے نریندر دامودر داس مودی جو کہ بچپن میں چائے بیچتے تھے ایک دن ہندوستان کی جمہوریت میں ایک نئی تاریخ لکھیں گے۔ جیسے نتیجے آئے ہیں اس کے لئے الفاظ کی کمی ہے۔ بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں شاندار، ناقابل یقین اور تاریخی۔ لگتا ہے اچھے دن آگئے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!