کیا نتیش بہار میں آر پار کی لڑائی چھیڑ رہے ہیں؟

صدارتی چناؤ امیدوار کو لیکراین ڈی اے میں چھڑی جنگ میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ یوپی اے امیدوار پرنب مکھرجی کو لیکر تو پہلے ہی این ڈی اے میں دراڑ پڑ گئی تھی لیکن اب تو لگتا ہے کہ کہیں این ڈی اے ہی نہیں ٹوٹ جائے؟ تازہ معاملہ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کے بیانات کو لیکر کھڑا ہوگیا ہے۔ نتیش کمار نے ایک اخبار میں یہ بیان دے کر ہنگامہ کھڑا کردیا کہ این ڈی اے کا وزیر اعظم کا امیدوار ایسا ہونا چاہئے جس کی ساکھ سیکولرہو۔ ان کے اس بیان کو جہاں گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کے امکانات پر پانی پھیرنی کی کوشش کہا جاسکتا ہے۔ وہیں انہوں نے صاف اشارہ دے دیا کہ نریندر مودی کو بطور وزیر اعظم امیدوار قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اگر بھاجپا نے ایسا کیا تو این ڈی اے چھوڑ سکتے ہیں اور انہوں نے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی ہوگی کہ بہار میں ان کی بھاجپا کے ساتھ سانجھا سرکار چلتی ہے یا گرتی ہے۔ نتیش نے آخر کار بیان ایسے وقت کیوں دیا ؟انہوں نے پہلے ہی صاف کردیا تھا کہ یوپی اے امیدوار پرنب مکھرجی کی حمایت کریں گے۔ پھر یہ بیان دینے کے پیچھے کیا مقصد ہے؟ کیا وہ اپنے کو وزیراعظم کا امیدوار اعلان کررہے ہیں؟ نتیش کا بیان آنے کے بعد اور تو اور آر ایس ایس بھی سیدھے میدان میں اترگئی ہے۔ سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے نتیش کمار پر پلٹ وار کرتے ہوئے یہ سوال کھڑا کردیا کوئی بھی ہندوتو وادی دیش کا پردھان منتری کیوں نہیں بن سکتا؟ حالانکہ بھاگوت نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن مانا جاسکتا ہے کہ سنگھ اب نریندر مودی کے حق میں کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ہاں چلو ایک بات اور ثابت ہوگئی ہے کہ سنگھ جو آج تک یہ کہتا آیا کہ وہ سیاست میں دخل نہیں دیتا اب کھل کر سیاسی معاملوں پر بولنے لگا ہے۔ پہلے اے پی جے عبدالکلام کو حمایت دینے کا بیان اور اب نتیش کمار کے بیان کا جواب ، ہونے والے وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ اور سیکولر ازم کو لیکر بھاجپا اور جنتا دل (یو ) کے درمیان جنگ تلخ ہوگئی ہے۔ بھاگوت کے بیان سے تلملائے نتیش بولے کہ 2002 میں گجرات دنگوں کے بعد سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی ،مودی کو ہٹانا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے مودی کو راج دھرم اپنانے کی نصیحت دی تھی۔ نتیش کی بات میں مرچ مسالہ لگاکر جنتا دل (یو) لیڈر شیوانند تیواری تو ایک قدم آگے اور بڑھ گئے انہوں نے کہا کہ اگر مودی وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے تو این ڈی اے ٹوٹ جائے گا؟ جنتا دل (یو) این ڈی اے چھوڑدے گا۔ تیواری آگے بولے کے بھاجپا کوطے کرنا ہے کہ اگلے چناؤ کے بعد اسے مرکزی سرکار بنانی ہے یا اپوزیشن میں رہنا ہے۔ دیش کو وزیر اعظم کی شکل میں کوئی دھارمک چہرہ پسند نہیں ہے۔ 1996ء میں بھاجپا نے صاف کیا تھا کہ وہ کٹر ہندوتو کی بنیاد پر مرکزمیں سرکار نہیں بنا سکتی اس لئے یکساں سول کورٹ ،دفعہ370 اور رام مندر کا اشو چھوڑا گیا۔ اگر گودھرا کانڈ کے بعد واجپئی نے نریندر مودی کو برخاست کیا ہوتا تو این ڈی اے 2004ء کا چناؤ نہیں ہارتا۔ واجپئی چاہتے تھے کہ فسادات کے بعد نریندر مودی استعفیٰ دے دیں لیکن اڈوانی نے اس سے مودی کو روک دیا تھا۔ ایک سوال اب یہ اٹھ رہا ہے کہ بہار میں جنتا دل (یو) بھاجپا اتحاد سرکار کا کیا ہوگا؟ نتیش اور تیواری کے تلخ بیانوں پر بھاجپا میں زبردست رد عمل ہونا فطری ہی تھا۔ ان کے جواب میں نریندر مودی حمایتی بھاجپا کے سینئر لیڈر و نتیش سرکار میں وزیر پشوپالن گری راج سنگھ نے نتیش کمار کو چیلنج کردیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مودی کے ساتھ ہیں اور انہیں کسی سیکولرازم کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ گری راج نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ نریندر مودی کی حمایت سے وزیر اعلی نتیش کمار اگر آج اپنے آپ کو الجھن میں محسوس کرتے ہیں اور ان میں دم ہے تو انہیں برخاست کردیں۔ اس سے پہلے منگلوار کو بھی گری راج نے تلخ لہجے میں کہا تھا کہ سیکولرازم کی تشریح پھر سے طے ہونی چاہئے۔ نریندر مودی معاملے پر جنتا دل(یو) اور بھاجپا لیڈروں کی زبانی جنگ کو روکنے کے لئے نائب وزیر اعلی سشیل کمار مودی آگے آئے اور دن بھر خبریہ چینلوں میں بیانوں کی جنگ کے پیش نظر سشیل مودی نے سمجھایا کے بہار میں نریندر مودی اشو نہیں ہیں لالو اشو ہیں، سڑک بجلی جیسے اشو ہیں۔آج پارٹی وزیر اعظم امیدوار اعلان نہیں کررہی ہے کے اتحاد پر غور و خوض جیسی باتیں ہوں۔ جن اشو اور شرطوں پر اتحاد بنا تھا وہ ویسے ہی ہیں۔ لوک جن شکتی پارٹی چیف رام ولاس پاسوان نے کہا ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت گجرات اسمبلی چناؤ میں نریندر مودی کو فائدہ پہنچانے کیلئے نتیش کمار سیکولرازم کا شگوفہ چھوڑ رہے ہیں۔ بہار میں کرپشن کے اشو پر بھٹکا جارہا ہے۔ پاسوان نے نتیش کمار سے پوچھا کہ وہ بتائیں کے اڈوانی سیکولر ہیں یا فرقہ پرست؟ بہار میں جنتا دل (یو) بھاجپا اتحاد کی حکومت ہے نتیش جس طرح کی بیان بازی کرکے نورا کشتی کا کھیل کھیل رہے ہیں کانگریس کے پردیش پردھان محبوب علی کوثر نے کہا کہ وزیر اعظم کے دوڑ میں بنے رہنے کے لئے وزیر اعلی نتیش کمار نوٹنکی کررہے ہیں۔ نریندر مودی کی تنقید محض دکھاوا ہے۔ انہوں نے کہا گودھرا کانڈ کے وقت نتیش کمار مرکز میں وزیر تھے اور اس وقت مودی کے بچاؤ میں سامنے آئے تھے۔ انہوں نے کہا بہار میں کھانے پر بلاکر منع کرنا اور دہلی سے ہاتھ ملانا جنتا کے ساتھ ایک گھناؤنا مذاق ہے۔ ان کی کتھنی اور کرنی میں کافی فرق ہے۔ جہاں تک بہار میں جنتا دل (یو ) بھاجپا اتحاد کا سوال ہے نمبروں کے مطابق 243 سیٹوں والی بہار اسمبلی میں حکمراں اتحاد کا جوڑ 208 ہے۔جنتادل (یو ) کے پاس117 اور بھاجپا کے پاس 91 ہیں جبکہ اقتدار میں بنے رہنے کیلئے122 ممبران اسمبلی کی ضرورت ہے۔ ایسے میں اگر بھاجپا اقتدار سے ہٹتی ہے تو جنتادل (یو ) کے پاس سرکار کے لئے ضروری 5 ممبر اسمبلی کم ہوجائیں گے۔ دیکھنے میں یہ تعداد چھوٹی ہے لیکن اسے جٹانا اتنا آسان نہیں ہے۔ بہار میں راشٹریہ جنتادل ،لوک جن شکتی اتحاد کے پاس23 سیٹیں ہیں جبکہ کانگریس کے 4 اور آزاد6 ممبر ہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ نتیش کانگریس سے گٹھ بندھن کرلیں اور ایک دو آزاد ممبران اسمبلی کو شامل کرلیں اگر بہار میں نتیش کانگریس سے ہاتھ ملاتے ہیں تو مرکز میں بھی وہ یوپی اے سرکار کا حصہ بن سکتے ہیں۔ا ب بھاجپا کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ ایسی سرکار میں بنے رہنا چاہیں گے جو آئے دن پارٹی کو کوستے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ نتیش اب زیادہ دن بھاجپا کے دوست نہیں رہیں گے انہیں نے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے یہ اس کی شروعات ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!