احتجاج سے شروع ہوا ہے ولادیمیر پوتن کا تیسرا عہد
روس میں صدر ولادیمیر پوتن کی کیا اقتدار پر پکڑ ڈھیلی ہوتی جارہی ہے؟ پوتن نے 7 مئی کو اپنی تیسری صدارتی میعاد کا آغاز کیا ہے۔ سال2000ء میں بورس یلتسن کو ہرا کر پوتن پہلی مرتبہ روس کے صدر بنے تھے۔2004 میں انہوں نے دوبارہ چناؤ جیتا وہ2008 میں بھی صدارتی چناؤ لڑے مگر آئینی رکاوٹیں بیچ میں نہیں آتیں تو اسے دور کرنے کے لئے پتن پردھان منتری بن گئے اور اپنے بھروسے مند دیمتری میدوف کو ملک کا صدر بنوادیا۔ تیسری بار حلف لینے کے فوراً بعد پوتن نے وزیر اعظم کی شکل میں میدوف کو بٹھا دیا۔ یہ دونوں لیڈروں کے درمیان اقتدار کی سانجھے داری کے سمجھوتے کے تحت کیا گیا۔ خفیہ ایجنسی کے جی بی کے افسر کے طور پر کام کرچکے پوتن اپنی یہ میعاد پوری کرتے ہیں تو وہ اسٹالین کے بعد سوویت روس اور روس میں سب سے زیادہ مدت تک صدر کا عہدہ سنبھالنے والے لیڈر بن جائیں گے۔ لیکن گذشتہ دنوں پوتن کے خلاف ہزاروں لوگ ماسکو کی سڑکوں پر اترآئے۔ مظاہرین ’’پوتن بنا روس‘‘ اور ’’پوتن چور ہے‘‘ کے نعرے لکھے بینر لے کر سڑکوں پر اترآئے ہیں۔ یہ موجودہ عہد میں پوتن کے خلاف سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ چشم دید گواہوں کا کہنا تھا کہ مارچ میں صدارتی چناؤ جیتنے کے لئے پوتن نے دھاندلے بازی کی اور زبردستی چناؤ جیتا۔ اس سے پہلے پولیس نے کئی اپوزیشن لیڈروں کے گھروں پر چھاپے ماری کی۔ منگل کی اس ریلی مارچ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ تیسرے عہد کے آغاز سے ہی پوتن کی مخالفت شروع ہوگئی ہے۔ اپوزیشن تبھی سے کہہ رہی ہے کہ پوتن نے ان انتخابات میں سرکاری مشینری کا بیجا استعمال کرتے ہوئے جعلسازی کی ہے۔ پوتن نے جھگڑے کا کوئی حل تلاش کرنے کے بجائے مظاہرین کو کچلنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ انہوں نے کئی بار یہ بھی دہرایا کہ اس تحریک کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے۔ پوتن کے اس رویئے سے لوگوں کے درمیان ان کی ساکھ ایک ایسے لیڈر کی بن گئی ہے جو کسی بھی قیمت پر اقتدار ہتھیانا چاہتے ہیں۔ صدر پوتن کو اب چاہئے کہ وہ اپنے بھروسے کو بحال کرنے کیلئے بلا تاخیر چناؤ اصلاحات کریں تاکہ چناوی عمل میں شفافیت آئے۔ وہ جب تک چناؤ اصلاحات کی سمت میں کوئی کارگر قدم نہیں اٹھائیں گے مظاہروں کی آواز شاید خاموش ہوپائے۔ اگرچہ وہ ایسا کرپاتے ہیں تو یہ روس کی سیاست کی تاریخ کی بڑی تبدیلی ہوگی۔ کمزور سیاسی سسٹم کے علاوہ روس میں ایک بہت بڑا مسئلہ کرپشن بن گیا ہے خود پوتن تسلیم کرتے ہیں کہ دیش میں سسٹم کرپشن سے متاثر ہے۔ کرپشن پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل نے روس کو کرپشن کے معاملے میں 178 دیشوں کی فہرست میں 154 ویں مقام پر رکھا ہے جبکہ بھا رت کا اس فہرست میں 87 واں نام ہے۔ یہ ہی نہیں ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے بینکوں میں ابھی جتنی کالی کمائی جمع ہے، اس میں سب سے زیادہ پیسہ ہندوستانیوں کا ہے تو دوسرے نمبر پر روسی ہیں۔ روس میں بھی کرپشن عام زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ ٹریفک پولیس، ڈاکٹروں سے لیکر اعلی سطح تک زیادہ تر ملازمین نے رشوت خوری کی روایت بنا ڈالی ہے۔ فوج تک میں اب کرپشن بڑھ چکا ہے۔ دیش کی بگڑتی معیشت کو پٹری پر واپس لانے کی چنوتی صدر پوتن کے سامنے منہ کھولے کھڑی ہے۔عالمگیر اقتصادی مندی سے بھی روس بچ نہیں سکا۔ بے روزگاری اور غریبی کی پریشانی دن بدن سنگین ہوتی جارہی ہے لیکن اس کا اچھا اشارہ یہ ہے کہ روس میں بہتری آرہی ہے۔ دیش کا غیر ملکی کرنسی ذخیرہ بڑھنے لگا ہے اور دیش کی کرنسی روبل آہستہ آہستہ مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ اقتصادی بحران سے لڑنے کے لئے خرچ کی گئی30 کھرب روبل کی بھاری بھرکم رقم کا اثر دکھائی پڑنے لگا ہے۔ دیش نے اناج درآمدات کرنے کی صلاحیت پھر سے حاصل کرلی ہے۔ پھر بھی پوتن کو دیش کی معیشت کو پرانے مقام تک پہنچانے کیلئے بڑی مشقت کرنی ہوگی۔ صدر پوتن کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر سطح پر جوابدہی اور شفافیت کے کلچر کو رائج کرنا ہوگا۔ اگر پوتن ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں سوویت یونین کے زوال کے بعد روس کو پھر سے مضبوط سے کھڑا کرنے والے پہلے لیڈر کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ امید کی جانی چاہئے کہ ’اسٹرانگ مین‘ کہے جانے والے روس کو اس اونچائی پہنچانے میں کامیاب ہوں گے جو ایک وقت سوویت یونین تک پہنچ گئی تھی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں