اگر گھر نہیں چلا سکتے تو شادی کیوں کرتے ہو؟



Published On 6 May 2012
انل نریندر

یہ فیصلہ ممبئی ہائی کورٹ نے ایک کیس میں دیا ہے ممبئی ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ اگر بیوی کا خرچ نہیں اٹھا سکتے تو شادی ہی نہ کریں۔غور طلب ہے کہ 28فروری 2011کو فیملی کورٹ نے بھلاڈ نواسی 30سالہ دیپک کو اپنی بیوی دیپا (دونوں تبدیل شدہ نام)کو 6ہزار روپے فی ماہ گذارہ بھتہ دینے کا حکم دیا تھا۔ٹی وی سیریلوں میں اور ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے والے دیپک نے اسی فیصلوں کو ممبئی ہائی کورٹ میں چنوتی دی تھی۔دیپک کے وکیل نے جسٹس پی مجوم دار اور جسٹس انوپ مہتہ کی بنچ کو بدھوار کو شنوائی کے دوران مطلع کیا کہ2.76لاکھ روپے کا بقایا بھگتان ادا کرنے کے حکم کے بعد بھی چار سیریلوں میں کام کر رہے ہیں۔دیپک نے ان کے موکل کو پیسے نہیں دئیے۔ اس پر دیپک کے وکیل نے کہا کہ ان کا موکل صرف اسسٹنٹ آرٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ایک چینل بند ہونے اور ایک سیریل ختم ہونے کی وجہ سے ان پہلے کی طرح انکم نہیں ہو رہی۔اس پر عدالت نے کہا کہ شادی کے بعد شوہر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اب بیوی کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا۔ اگلے سال 4مئی کو دیپا نے سسرال چھوڑ دیا۔ اپنی پٹیشن میں دیپک نے کہا کہ کئی کوششوں کے بعد بھی دیپا نے واپس آنے سے منع کر دیا۔2008میں دیپک نے فیملی کورٹ میں طلاق کی عرضی دی۔دیپک کے وکیل نے بتایا کہ دیپا معاملے کو نپٹانے کیلئے دس لاکھ روپے چاہتی ہے۔اس پر کورٹ نے کہا کہ وہ تو شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے،لیکن آپ اسے اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتے۔اس لئے آپ کو اسے بھگتان کرنا چاہئے۔بنچ نے دیپک کوبقایا بھگتان کا حکم دیتے ہوئے معاملے کی شنوائی ٹال دی۔ہم کورٹ کے اس فیصلے سے متفق ہیں۔اگر آدمی یا نوجوان شادی کرتا ہے تو اسے طے کرنا چاہئے جب وہ بیوی کا خرچ اٹھا سکے۔آج کل نوجوانوں میں بغیر سوچے سمجھے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے شادی کرنے کا رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔طلاق کی صورت میں شوہر کو اتنا بھتہ تو دینا ہی چاہئے کہ وہ اپنا گذر کر سکے۔چھ ہزار روپے فی ماہ ایک عورت کے گذر کیلئے ویسے بھی کافی نہیں لیکن اگر شوہر اتنا بھی ادا نہیں کر سکتا تو بہتر ہوتا کہ وہ شادی ہی نہ کرتا۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Delhi High Court, Divorce, Hindu Marriage Act. Hindu Succession Act, Supreme Court, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟