یوپی اے کی پالیسیوں کے سبب غریبوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے
Published On 8 May 2012
انل نریندر
کہا جارہا ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے تیزی بڑھنے والی معیشت ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب بھارت دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن جائے گا لیکن یہ تو باتیں ہیں نمبروں سے نمبروں کی۔ کچھ سیاستداں خوش ہوسکتے ہیں لیکن عام جنتا میں جب تک یہ خوشحالی نہیں پہنچتی تو یہ سب کھوکھلی باتیں ہی لگتی ہیں۔ امیر زیادہ امیر ہوتے جارہے ہیں غریب زیادہ غریب۔ قومی ماڈل سروے آرگنائزیشن کے تازہ اعدادو شمار سے ایک بار پھر یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ دیش کی آدھی سے زیادہ آبادی بدحالی میں جینے کو مجبور ہے۔ اس مطالعہ کے مطابق جولائی 2009ء سے جون 2010 ء کے درمیان ساڑھے چھ فیصدی دیہاتی روزانہ 35 روپے سے کم میں گذارہ کررہے تھے وہیں 60 فیصدی شہریوں کی آبادی کا اوسطاً یومیہ خرچ 66روپے درج کیا گیا۔ اب اگر ہم بات کریں دیش کے نونہالوں کی کچھ مہینے پہلے وزیر اعظم کے ہاتھوں جاری ہوئی ایک رپورٹ میں خلاصہ ہوا ہے کہ دیش کے 14 کروڑ نونہال غذائی قلت کے شکار ہیں۔ اسی طرح پچھلے دنوں وزیر مملکت خزانہ نمون نارائن مینا نے پارلیمنٹ میں مانا کہ دیش میں 8200 امیر لوگوں کے پاس تقریباً945 ارب امریکی ڈالرکی دولت ہے۔ اگر دیش کی معیشت کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو یہ رقم اس کا قریب 70 فیصدی ہے۔ صاف ہے کہ وسائل کے اندھادھند تقسیم کے ساتھ سرکاری پلاننگ پالیسی کے عدم توازن ہونے کے سبب دیش کا ایک بڑا طبقہ آج بھی دیش کی ترقی کی قومی دھارا سے باہر ہے جس کی عمل میں کمی نکسلواد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی ناراضگی کے دوسرے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ایک بات تو صاف سامنے آتی ہے کہ بھارت کے گاؤں دیہاتوں میں لوگوں کی معیار زندگی اب بھی سب سے نیچے سطح پر بنی ہوئی ہے۔ شہروں میں اس کے مقابلے حالت تھوڑی بہتر ضرور دکھائی پڑتی ہے لیکن یہاں کی ضرورتوں اور زندگی کے حالات کو اگر توجہ دیں تو سمجھ میں آئے گا کے یہاں زیادہ تعداد میں لوگ آج بھی کم از کم ضرورت پوری کرنے کے لئے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔ بین الاقوامی غریبی پیمانے کے مطابق یومیہ سوا ڈالر (امریکی) کمانے والا غریب ہے اور ایک ڈالر کمانے والا انتہائی غریب ہے۔
جب ہمارے وزیر اعظم اور ان کے اقتصادی مشیر منڈلی عالمی سطح کے پیمانوں کی بات کرتی ہے لیکن جب غریبی کے جائزے کی بات سامنے آتی ہے تو وہ بین الاقوامی پیمانوں کو قبول نہیں کرتی۔ اگر عالمی پیمانے کو بھارت میں لاگو کردیا جائے تو غریبی کا کیسا نقشہ سامنے آئے گا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرکار اپنی اقتصادی پالیسیوں ،ترجیحات اور غریبی کی ریکھا کو بدلنے کو کیوں راضی نہیں ہے؟ اس لئے کے اگر غریبی کی ریکھا صحیح طریقے سے مرتب ہوگی تو غریبوں کی تعداد کافی بڑھی ہوئی نظر آئے گی۔ این ایس اے او کی نئی رپورٹ تب آئی ہے جب دیش کی معیشت بیحد نازک دور سے گذر رہی ہے۔ بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیاں ہماری ترقی کے جائزے کو کم کرکے دیکھ رہی ہیں۔ دیش کے بڑے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں کی صحت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ حقیقت میں غریبوں کی غریبی کے جو اعدادو شمار دکھائے جارہے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Inflation, Poor, UPA, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں