بھاجپا کیلئے نتیجے زیادہ غم خوشی کم لیکر آئے ہیں



Published On 10 March 2012
انل نریندر
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ تھوڑی خوشی اور زیادہ غم لیکر آئے ہیں۔ خوشی کی وجہ یہ ہے گووا کا نتیجہ۔ گووا میں بھاجپا اور مہاراشٹر وادی گومنتک پارٹی کو واضح اکثریت مل گئی ہے۔ بھاجپا میں پہلی بار خوبصورت ساحلوں والی اس ریاست میں 21 سیٹیں جیت کر اکیلے اپنے دم خم پر اکثریت حاصل کی ہے۔ گووا میں بھاجپا کی اس کامیابی کے لئے اصل ہیرو سابق وزیر اعلی پاٹیکر ہیں۔چناوی کمان انہیں کے ہاتھوں میں تھی۔ گووا میں میری رائے میں ایک بہت بڑا کارنامہ بھاجپا کا یہ ہے کہ اس نے اقلیتوں کی حمایت سے اقتدار حاصل کیا ہے۔ گووا کے عیسائیوں نے یہ ثابت کردیا ہے بھاجپا ان کے لئے اچھوت نہیں ہے۔ جنوبی گووا کی 17 میں سے8 سیٹیں پارٹی ان حلقوں میں جیتی ہے جہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے۔ بھاجپا نے خود 6 عیسائی امیدوار کھڑے کئے تھے اور 2 آزاد کی حمایت کی تھی۔ سبھی آٹھوں امیدواروں جیتے ۔ پارٹی کو سب سے بڑا جھٹکا اترپردیش میں لگا ہے۔ ریاست میں چناؤ نتائج بھاجپا کو 2014 ء میں مرکز تک این ڈی اے سرکار بنانے کی امیدوں پر بڑا جھٹکا ثابت ہوئے ہیں۔ بھاجپا اترپردیش کے اسمبلی چناؤ میں بوئے گئے بیج سے مرکز میں 2014 کے لوک سبھا چناؤ میں کامیابی حاصل کرنے کا اندازہ لگا رہی تھی لیکن نتیجے آئے اس سے مایوس کن اور پریشانی ہی ہاتھ لگی۔ اترپردیش پھر ایک بار تاملناڈو کی راہ پر چلا گیا ہے جہاں قومی پارٹی کا کردار بے جواز ہوکر رہ گیا ہے۔ بھاجپا اور آر ایس ایس کی چناوی لیباریٹری بنے یوپی انتخابات میں جہاں ایک ایک کرکے سبھی تجربوں کو دھکا لگا ہے وہیں پارٹی کے کئی لیڈروں کو دھول چٹانے میں بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ ناراض ووٹروں کو منانے کا ذمہ آر ایس ایس اور صدر نتن گڈکری نے مل کر اٹھایا تھا۔ سب سے پہلے گڈکری نے سنگھ کی حمایت کی بدولت پارٹی کے بڑے لیڈر اور گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کی مخالفت کے باوجود سنگھ کے پرچارک رہے سابق تنظیمی سکریٹری سنجے جوشی کو یوپی کے چناؤ میں سرگرم کیا۔ دوسرا نتن گڈکری نے سبھی پارٹی نیتاؤں کی مخالفت کے باوجود بسپا سے نکالے گئے بابو سنگھ کشواہا اور بادشاہ سنگھ کو پارٹی میں شامل کیا۔ بڑھتی ناراضگی کے چلتے کشواہا کی ممبر شپ تو معطل کردی گئی لیکن کرپشن کے دوسرے ملزم بادشاہ سنگھ کو پارٹی میں بنائے رکھا بلکہ ان کو مہوبہ سے چناؤ میدان میں اتاردیا۔ پارٹی نے بندیلکھنڈ کو لیکر جتنے بھی تجربے کئے سوائے اس میں ایک اما بھارتی کے علاوہ کوئی نہیں جیت سکا۔ مسلم ووٹروں کے پولارائزیشن کو روکنے کے لئے اپنے سبھی فائر بینڈ لیڈروں ورون گاندھی، یوگی ادتیہ ناتھ کو جہاں اپنے حلقے تک محدود کردیا وہیں دوسری طرف ہندو وادی چہرہ مانے جانے والے نریندر مودی کو دعوت تو بھیجی لیکن جب ان کی ناراضگی ظاہر ہوئی تو انہیں منانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ پارٹی کی سبھی کوششوں کے بعد بھی پارٹی مسلم ووٹوں کو بٹوانے میں کامیاب نہ ہوسکی بلکہ وہ اپنی اس کوشش میں اپنے روایتی ووٹ بھی گنوا بیٹھی جس کے چلتے پارٹی کو 2007ء کی کارکردگی کو دوہرانا تو دور رہا بلکہ اس سے بھی کم ہوگئی۔ ایودھیا میں 6 دسمبر1992ء کے متنازعہ ڈھانچہ گرنے کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے جب بھارتیہ جنتا پارٹی کا امیدوار للوسنگھ سپا کے تیج نارائن پانڈے عرف پون پانڈے سے ہار گیا۔ للو سنگھ 1991ء سے مسلسل یہ سیٹ جیت رہے تھے۔ اترپردیش کے لئے امیدوارں کا چناؤ بھی آر ایس ایس گڈکری اور سنجے جوشی نے کیا تھا۔ انہوں نے ایسے پھسڈی امیدوار کھڑے کئے جنہوں نے نہ صرف پارٹی کی بھد پٹوائی بلکہ مقابلے میں نہ رہ کرچوتھے میدان پر رہے۔ اور بہت سے امیدواروں نے اپنی ضمانت تک گنوا دی۔ 122 ایسے امیدوار ہیں جو چار مقابلوں کی لڑائی میں جگہ تک نہیں بنا سکے۔ بھاجپا پردھان نتن گڈکری نے یوپی کے اندر تبدیلی کے لئے لمبی تیاری کی تھی۔ پارٹی کے اندر پرانا روایتی رویہ رکھنے والے امیدواروں کی بجائے نئی نسل کے امیدواروں کو لانے کا تجربہ کیا گیا۔ یہ ہی نہیں گڈکری اینڈ کمپنی نے الگ سروے کرایا جس سے کہ اول امیدوار کا انتخاب ہوسکے۔ چناؤ کے بعد جو حالت بنی ہے اس میں بھاجپا کے چوتھے مقام پر قریب 122 امیدوار رہے جن میں سے زیادہ تر اپنی ضمانت بچانے کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ کئی امیدوار تو ایسے تھے جن کو پانچ ہزار ووٹ لانے کے لالے پڑ گئے۔ اترپردیش میں بھاجپا حاشئے پر چلی گئی اور اس کے لئے ذمہ دار ہیں آر ایس ایس، نتن گڈکری اور سنجیو جوشی جیسے بڑے نیتا۔
Anil Narendra, BJP, Daily Pratap, Elections, Goa, Nitin Gadkari, Punjab, RSS, Sanjay Joshi, State Elections, Uttar Pradesh, Uttara Khand, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟