مایا کے خلاف نگیٹو ووٹ اور اکھلیش یادو کی آندھی
Published On 8 March 2012
انل نریندر
پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں ان میں نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ اسباب کے لمبے چوڑے تجزیئے ہونے لگے ہیں۔ موٹے طور پر جو اہم وجہ مجھے لگی وہ کچھ اس طرح ہے۔ پہلے ہم بات کرتے ہیں اترپردیش کی۔یہاں چناؤ سب سے زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ سائیکل نے ہاتھی کو پست کردیا۔ سماجوادی پارٹی کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ تھی مایاوتی حکومت کے خلاف ناراض ووٹ ۔ یوپی کی عوام نے طے کردیا تھا کہ مایاوتی کی بسپا سرکار کو ہرانا ہے اور سامنے متبادل کی شکل میں اس کوسپا کے نوجوان لیڈر اکھلیش یادو نظر آئے۔ اکھلیش یادو ریاست کے عوام کی نبض کو سمجھنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے جی توڑ محنت کی اور زمین پر چلنے والے اکھلیش نے ایک نئی امید کی کرن پیدا کی۔ محنت تو راہل گاندھی نے بھی کم نہیں کی تھی ۔ انہوں نے بھی دو مہینے سے یوپی بھر میں خاک چھانی۔ 20 سے زیادہ ریلیاں کیں لیکن جنتا ایسا نیتا چاہتی تھی جس کے پاس وہ چاہ کر اپنی نالی، بجلی، پانی کے مسئلے کو سامنے رکھ سکے۔ وہ ہر بات راہل سے آکر دہلی میں نہیں کہہ سکتے تھے۔ راہل کی کڑی محنت پر یوپی کانگریس یونٹ نے پانی پھیردیا۔ چناوی ماحول تو راہل نے بنا دیا لیکن فصل کاٹنے کے لئے تنظیم تیار نہیں تھی۔ کوئی بوتھ کمیٹی نہ تھی اور نہ ہی ضلع کمیٹی ۔ جن مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے کانگریس نے ہر ہتھکنڈہ اپنا یا انہوں نے ملائم کی جھولی میں جانا بہتر سمجھا۔ مسلم ووٹ سپا ۔ کانگریس اور بسپا میں بنٹا یکمشت کسی کو نہیں گیا لیکن اکثریت سپا کے ساتھ گئی۔ مایاوتی اپنی ہار کے لئے خود ذمہ دار ہیں۔ ان کا تاناشاہی طریقہ عوام کو نہیں بھایا۔ مہارانیوں کی طرح ان کے برتاؤں سے خود ان کے پارٹی والے دکھی تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ دلت ووٹ بھی پوری طرح سے بسپا کو ملا۔ آخر وہ ووٹ دیتے بھی کیوں؟ جن دلتوں کی بہبود کے لئے مایاوتی اقتدار میں آئیں اسی دلت کو کالج میں ایک کلرک کی نوکری لینے کے لئے چار لاکھ روپے رشوت دینی پڑتی تھی۔ لوگ بھوکے مر رہے تھے اور بہن جی ہاتھی بنوانے میں لگی ہوئی تھیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں نہ تو کسی کالج میں چناؤ ہوا اور نہ ہی بلدیاتی اداروں کے چناؤ ہوئے۔ سارا چناوی عمل ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ نوجوانوں میں بہن جی کے تئیں ناراضگی تھی۔ کسانوں کی زمین بلڈروں کو اونے پونے بھاؤ میں لٹا دی اور پیسہ بنانے کی فیکٹری بن گئی۔ بہوجن سماج پارٹی کے خلاف لوگوں کا متبادل کیا تھااسی لئے انہوں نے دوسری لیڈر شپ کی لائن کے لیڈر کو کڑا کرنے کی کوشش کی اور کوئی نوجوان چہرہ تھا ان کے پاس پیش کرنے کو۔ متبادل کے طور پر ریاست کی عوام کو اکھلیش یادو کی شکل میں نظر آیا۔ نیتا جی (ملائم) شاید اپنے بلبوتے پر یہ چناؤ نہ جیت پاتے۔ آج بھی ان کے غنڈے راج کو کوئی نہیں بھولا۔ 2007ء میں ان کا اسی طرح صفایا ہوا تھا کیونکہ ہر تھانے میں ہر گاؤں میں تحصیل میں ملائم کھڑا ملا۔ دراصل سپا کے ورکر اقتدار میں آنے سے سبھی ملائم بن جاتے ہیں اور وہاں غنڈہ راج آ جاتا ہے۔ اسی سے ناراض عوام نے مایاوتی کو موقعہ دیا تھا۔ اکھلیش یادو کے لئے یہ سب سے بڑی چنوتی ہوگی اپنے ورکروں پرلگام رکھنا۔ پارٹی کے برسر اقتدار آتے ہی دو مقامات پر تو گولی چل چکی ہے، مارپیٹ ہوچکی ہے۔ یوپی کی عوام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سیاستدانوں سے زیادہ وہ پالیسیوں کو ترجیح دیتی ہیں۔ بھاجپا کو یہ ہی حکمت عملی مار گئی۔ اس بار یوپی کا سارا چناؤ خود آر ایس ایس نے لڑا۔ سنجے جوشی، نتن گڈکری نے امیدواروں سے لیکر ریلیوں تک سب کچھ سنگھ کے اشاروں پر کام کیا۔ سنگھ نے کہا کے اڈوانی سمیت کسی بڑے نیتا ہو دہلی گجرات سے نہیں بلانا اور نہ بلایا گیا۔ اوما بھارتی کو زبردستی لا کر یوپی کے نیتاؤں میں گھمسان کردیا۔ بھاجپا اس چناؤ میں ایک بٹی ہوئی پارٹی کی طرح اتری اور اس کا نتیجہ سامنے ہے۔ اس چناؤ میں بھاجپا کی اتنی ہار نہیں ہوئی ہے جتنی سنگھ کی ہوئی ہے۔ بھاجپا تو پہلے سے بھی زیادہ گر گئی ہے۔اسی حکمت عملی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اتراکھنڈ میں بھاجپا کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اتراکھنڈ کی بدقسمتی دیکھئے وہاں رمیش پوکھریال نشنک چناؤ جیت گئے جنہیں کرپٹ ہونے کے الزام میں وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور بھون چندر کھنڈوری جو وزیر اعلی تھے چناؤ ہار گئے جن کی ایماندار ساکھ پر بھاجپا نے داغ لگادیا تھا۔ اس سے تو شاید بہترہوتا نشنک کو ہی وزیر اعلی بنائے رکھتے اور چناؤ سے تین مہینے پہلے انہیں ہٹا کر پارٹی کو نقصان پہنچ گیا۔ چناؤ میں شخصیت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ پنجاب میں پرکاش سنگھ بادل اور کیپٹن امریندر سنگھ آمنے سامنے تھے جہاں بادل انتہائی ملنسار ، عوام کے دکھ درد میں ساتھ دینے والے ہیں وہیں کیپٹن کا مہاراجہ اسٹائل نہیں بدلا۔ انہوں نے وہی شاہی انداز میں چناؤ لڑا جب جنتا کو بادل اور امریندر میں سے ایک کو چننے کا موقعہ ملا تو انہوں نے بادل کو ترجیح دی۔ پنجاب میں اکالیوں کے خلاف ماحول تھا لیکن کانگریس اس کا فائدہ نہیں اٹھا پائی۔ 44 سال میں یہ پہلا موقعہ ہے کے حکمراں پارٹی محاذ پھر سے چناؤ جیتا ہے۔ اترپردیش اسمبلی کے چناؤ نتیجے خاص کر اکثریت کا دعوی کرنے والی کانگریس کے لئے بیحد مایوس کن اور پریشانی کا باعث ہیں۔ پارٹی کو کہا ں تو دگوجے سنگھ جیسے بڑبولے نیتا 125 سیٹوں کا دعوی کرتے نہیں تھکتے تھے۔ کانگریس کو صرف وہاں28 ہی سیٹیں مل سکی ہیں۔ اگر لوک سبھا چناؤ میں22 سیٹیں جیتنے والی اس پارٹی کا تجزیہ تھا تو اس کی بنیاد پر اسے 100 سیٹیں ملنی چاہئے تھیں۔ اتحادی راشٹریہ لوکدل جس نے مغربی اترپردیش میں آندھی آنے کا دعوی کیا تھا کل 9 سیٹیں ہی جیت سکی جو پچھلی جیت سے کم ہیں۔ چناؤ میں کانگریس کی خراب کارکردگی کی حد تو تب ہوگئی جب ان کے گڑھ کہے جانے والے سونیا گاندھی کے پارلیمانی حلقے رائے بریلی میں کانگریس سبھی پانچوں سیٹیں ہار گئی جبکہ اس چناؤ میں اپنی پوری طاقت جھونکنے والے جنرل سکریٹری راہل گاندھی کے پارلیمانی حلقے والے ضلع امیٹھی میں کانگریس پانچ میں سے تین سیٹیں گنوا بیٹھی۔ امیتا سنگھ جیسی قد آور لیڈر امیٹھی میں ہار گئی۔ تمام ڈرامے کرنے کے باوجود سلمان خورشید اپنی بیوی لوئس خورشید کی ضمانت نہیں بچا سکے۔ چناؤ میں اپنے بڑ بولے پن کے لئے سرخیوں میں بنے رہے مرکزی وزیر فولاد بینی پرساد ورما کے بیٹے راکیش ورما دریا باد چناؤ دوڑ میں تیسرے نمبر پر رہے۔ ویسے اگر سرکردہ لیڈروں کی ہار کی بات کریں تو بھاجپا کا حشر بھی کانگریس جیتا ہی رہا۔ سوائے اوما بھارتی کے چناؤ میدان میں اترے سبھی دھرندر چناؤ ہار گئے۔ بھاجپا پردیش پردھان سوریہ پرتاپ شاہی سابق اسپیکر راجہ پتی رام ترپاٹھی اور قومی نائب صدر کلراج مشر ودھان منڈل کے لیڈر اوم پرکاش سنگھ اور سابق پردیش پردھان کیسری ناتھ ترپاٹھی کو بھی ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اترپردیش کے چناؤ میں عوام کا ان پارٹیوں کو مسترد کرنا ان کے لئے ایک سبق مانا جائے گا۔
Akhilesh Yadav, Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, Congress, Daily Pratap, Elections, Mayawati, Mulayam Singh Yadav, Rahul Gandhi, Samajwadi Party, Uttar Pradesh, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں