سونیا گاندھی کی پہل پر پرنب چدمبرم میں جنگ بندی



Published On 2nd October 2011
انل نریندر
منموہن سنگھ سرکار میں جاری اتھل پتھل کو روکنے کے لئے آخر کار پارٹی صدر سونیا گاندھی کو مورچہ سنبھالنا پڑا۔ سنکٹ موچک کے طور پر سامنے آئیں محترمہ سونیا گاندھی فوری طور پر موجودہ بحران کو ٹالنے میں کامیاب ہوگئی ہیں لیکن یہ صرف سرسری طور پر ہے ۔کیونکہ ایک ساتھ فوٹو کھنچوانے سے پرنب مکرجی اور پی چدمبرم کے درمیان اختلافات ختم ہونے سے رہے۔ پرنب دادا ان دنوں بہت ناراض چل رہے ہیں۔ اتنے غصے میں کیوں ہے کہ نیویارک میں انہوں نے وزیر اعظم سے استعفیٰ تک دینے کی دھمکی دے ڈالی تھی؟ اس کے بعد اسکے جواب میں دادا حمایتی کہہ رہے ہیں کہ ان پر شبہ ظاہر کیا گیا۔ نوٹ کے معاملے کو جس طرح سے پیش کیا گیا ہے یعنی انہوں نے وہ جان بوجھ کر دستاویز بنایا تھا اور پھر اسے افشاء کروادیا۔ پارٹی اور حکومت کے اندر یہ سوال کھڑا ہوا ہے کہ نوٹ بننے کی کیا ضرورت تھی جب دستاویز بن رہا تھا تو اسی وقت اس کی زبان پر غور کیوں نہیں کیا گیا۔ اس دستاویز کو آگے وزیر اعظم تک کیوں بھیجا گیا اور اسی وقت پارٹی لیڈر شپ کو کیوں نہیں بتایا گیا؟اندرونی مباحثوں کے درمیان یہ سوال پوچھے جارہے ہیں اور یہ پرنب دا کے حق میں جا رہے ہیں۔ یہ نوٹ پرنب دا کی پہل پر نہیں بنا۔ کیبنٹ سکریٹریٹ، پی ایم او، ٹیلی کام اور وزارت قانون کے افسروں کی پہل پر یہ جائزہ لیا گیا اور اس کے بعد نوٹ تیار ہوا۔ اتنے محکموں کے افسر جس معاملوں میں شامل ہوں اسے کوئی بھی وزیر کیسے روک سکتا ہے اور کیوں روکنا چاہئے؟ اگر پرنب دا اس نوٹ کو روکتے یا دباتے تو آج خود بھی سوالوں کے گھیرے میں آجاتے؟ یہ بھی ایک آر ٹی آئی کے جواب میں اس نوٹ کی کاپی پردھان منتری وزارت کے ایک بڑے افسر کی اجازت دی گئی۔ کاپی دینے سے پہلے وزارت مالیات سے پوچھا تک نہیں گیا اور اب جب سب کچھ ہوچکا ہے پرنب مکرجی پر سارا گناہ تھونپا جارہا ہے۔ اس حالت میں انہیں غصہ کیوں نہ آئے؟
اپنا خیال ہے کہ یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ چدمبرم کی مشکلوں کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ سونیا گاندھی کی کوششوں سے مسئلہ رکا ہے ،ختم نہیں ہوا۔ پرنب مکرجی نے نوٹ کیسے تیار ہوا اور کس کس وزارت سے گذرا اس کی تفصیل پیش کی ہے۔ لیکن جو نوٹ میں لکھا گیا ہے وہ تو جھوٹ نہیں ہے۔ نوٹ میں جو تحریر ہے اس سے چدمبرم کٹہرے میں ضرور کھڑے ہیں۔ معاملہ سپریم کورٹ میں جاری ہے۔ جے پی سی میں بھی الگ سے چل رہا ہے۔ وہاں بھی تو اس نوٹ کا نوٹس لیا جائے گا۔ آج چدمبرم پارٹی کے اندر الگ تھلگ پڑے ہیں ان کی حمایت کانگریس پارٹی میں اتنا شاید ذکر نہیں ہے جتنا ڈی ایم کے سے انہیں مل رہا ہے۔ وہ کروناندھی کے خاص نمائندے ہیں اس وقت کانگریس میں کام کررہے ہیں اور ڈی ایم کے کی مشکلیں کم ہونے والی نہیں ہیں۔ نہ صرف دیاندھی مارن کے خلاف سی بی آئی نیا معاملہ درج کرنے کی تیاری کررہی ہے بلکہ ٹو جی کیس میں سی بی آئی نے تہاڑ جیل میں بند اے راجہ اور ان کے سابق سکریٹری چندولیہ اور اس وقت کے ٹیلی کام سکریٹری سدھارتھ بیہورہ کے خلاف آئی پی ایس کی دفعہ409 کے تحت معاملہ چلانے کی دلیل کورٹ میں پیش کی ہے۔ سی بی آئی کا الزام ہے کہ اس معاملے میں اے راجہ اور دیگر کے خلاف جنتا کے ساتھ دھوکہ کرنے کا مجرمانہ معاملہ بنتا ہے۔ اگر یہ الزام ثابت ہوا تو عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے ڈی ایم کے خوش تو ہونے سے رہی۔ ادھر راجہ نے کورٹ میں چدمبرم سے بطور گواہ پوچھ تاچھ کرنے کی مانگ کی ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ معاملہ ختم نہیں ہوا ہے اور پارٹی میں مسلسل یہ کہا جارہا ہے کہ چدمبرم کے کردار پر کوئی فیصلہ سپریم کورٹ کا موقف ہی طے کرے گا۔ وزیر اعظم اور سونیا گاندھی کی ہدایت پر سرکار کی ساکھ بچانے کیلئے بھلے ہی پرنب چدمبرم ایک ساتھ کھڑے ہونے پر راضی ہوگئے ہیں لیکن ایسا کرنے میں دونوں کی ہچک باقی تھی اور اب بھی ہے۔ پرنب چدمبرم سے تب سے ناراض چل رہے ہیں جب سے انہوں نے وزارت مالیات کی جاسوسی کروائی تھی۔ وہ قصہ پرنب مکرجی بھولے نہیں ہیں۔ اب بھی چدمبرم وزارت مالیات میں دخل اندازی سے باز نہیں آرہے ہیں۔ دو دن پہلے ہی انہوں نے ایک پروگرام میں یہ کہا کہ امیر زیادہ ٹیکس بھرنے کے لئے تیار رہے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کیا یہ معاملہ وزارت داخلہ سے وابستہ ہے؟ کیا یہ وزارت مالیات کے اختیارات میں مداخلت تو نہیں ہے؟
2G, Anil Narendra, Daily Pratap, Manmohan Singh, P. Chidambaram, Pranab Mukherjee, Sonia Gandhi, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!