پوار-شندے کو ساتھ لینے کا فائدہ؟
کیا ہار میں کیا جیت میں کی قیمت نہیں ،میں کرتویہ پتھ پر جو ملا یہ بھی صحیح وہ بھی صحیح 1996میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی سرکار کا اکثریت میں آنا اور بعد میں 13دن کے وقفے میں گر گئی تھی۔ یہ اس سرکار کا انجام تھا ۔سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے پارلیمنٹ میں اکثریت نہ جٹانے کے درد کے طور پر اٹل جی نے یہ کویتا پارلیمنٹ میں پڑھی تھی۔ واجپائی کے دور میں بی جے پی اقتدار کیلئے کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے کا اپنا موقف دکھا رہی تھی۔ وہ بدلے دور میں کسی بھی طرح کا سمجھوتہ کرنے میں ہچک نہیں رہی ہے ۔ مہاراشٹر کی سیاست کی موجودہ تصویر سے اسے بہتر ڈھنگ سے سمجھا جا سکتا ہے ۔مہاراشٹر اسمبلی کے مانسون اجلاس کے ہنگامے دارہونے کی امید ہے ۔ تعجب ہی بھی ہے کہ اقتدار میں شامل سیاسی پارٹیوں کی مشکلیں اپوزیشن پارٹیوں سے کم نہیں دکھائی پڑ رہی ہے۔ مہاراشٹر کی موجودہ اسمبلی میں 105ممبران کے ساتھ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ہے۔اب وہ شندے کی حمایت سے بی جے پی اقتدار میں آئی اور سب سے بڑی پارٹی ہونے کے بعد بھی اسے وزیر اعلیٰ کا عہدہ چالیس ممبران اسمبلی والی شندے گروپ کو دینا پڑا ۔ ایک سال بعد جب لگا کہ کیبنٹ میں توسیع اور بی جے پی کے کئی چہروں کو شامل کیا جائے گاتبھی اجیت پوار کی این سی پی اتحاد میں شامل ہوگئی اور بی جے پی کے پانچ وزیر کے عہدے این سی پی کے کھاتے میں چلے گئے ۔ اتنا ہی نہیں کہ اب اندیشہ جتا یا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو اپنے کچھ اہم محکمے پوار گروپ کیلئے چھوڑنے ہوں گے ۔ ایسی میں بی جے پی ممبران اسمبلی کا اقتدار میں اپنا پورا حصہ نہیں مل رہا ہے اور اس بات کو لیکر ان کی ناراضگی مسلسل بڑھی رہی ہے ۔ ایک سال سے جاری شندے سرکار میں شندے ضرور وزیر اعلیٰ ہیں لیکن زیادہ اہم وزارت فڑنویس اور بی جے پی کے پاس تھے۔ جب پوار کی قیادت میں این سی پی کے 9وزراءنے حلف لے لی توانہوں نے اہم وزارتوں کی مانگ کی۔ اجیت پوار کو مالیات کوآپریٹیو ،خواراک و سول سپلائی ،میڈیکل ،تعلیم ،خاتون و اطفال ترقی جیسے اہم ترین محکمے بھی بی جے پی سے لیکر این سی پی گروپ کو دے دئے گئے۔ حالاں کہ بی جے پی ممبران اسمبلی کے پاس مرکزی لیڈر شپ کے فیصلے کی حمایت کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے لیکن کئی اہم وزارتوں کے چھن جانے کی وجہ سے بھاری ناراضگی دیکھی جا رہی ہے ۔حالاںکہ سرکار میں وزارت کے بٹوارے سے جڑے مسئلے کو سلجھا نا مشکل نہیں ہوتا ۔لیکن اس اتحاد کے الجھنے کا کہیں زیادہ اندیشہ ہے۔ دراصل اتحاد میں شامل ہوئے اجیت پوار گروپ کے کچھ نتیاو¿ں کو اپنی اپنی اسمبلی سیٹوں پر بی جے پی سے سیدھی ٹکر رہی ہے ۔ برسوں تک این سی پی کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے والے ممبران اسمبلی اور عہدیدارون کے سامنے اب شش وپنج کی حالت ہے ۔ مہا وکاس اگھاڑی سرکا ر بننے کے بعد ان سیٹوں پر پارٹی کے عہدیداران نے تینوں پارٹیوں کے خلاف چناو¿ کی تیار شروع کردی تھی۔ لیکن اب انہیں اجیت پوار اور ایک طرف شندے کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔اصل مشکل یہی ہے کہ حالاںکہ ابھی یہ ناراضگی اندرونی لگ رہی ہے لیکن چناو¿ کے دوران ٹکراو¿ بڑھنے کا اندیشہ لگایا جا رہا ہے۔ پچھلے چناو¿ میں بی جے پی نے جہاں اسمبلی کی 160سیٹوں پر چناو¿ لڑا تھا وہیں اس بار دو پارٹیوں سے تال میل بٹھاتے ہوئے ان سیٹوں پر سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ پوار شندے دونوں کو ساتھ لینے سے بی جے پی کو کتنا چناوی فائدہ ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں