خوف کی وہ داستاں جس نے دیش کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاتھا!

حیوانیت ،بے رحمی اور ظلم کی حدیں پار کرنے والے نٹھاری کانڈ پر پیر کی صبح 308 صفحات کا فیصلہ سناتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے سی بی آئی جانچ پر سنگین سوال کھڑے کئے ہیں ۔جسٹس ایس اے این رضوی اور جسٹس اشونی مشرا کی بنچ نے کہا کہ نٹھاری کانڈ کی جانچ کیلئے ذمہ دار ایجنسی کا رویہ عوام کے ساتھ دھوکہ سے کم نہیں ہے ۔یہ معاملہ اس لئے بھی تشویش کا باعث ہے کیوں کہ معصوم بچوں ،عورتوں کو غیرانسانی طریقے سے مارا گیا ۔ثبوت اکٹھا کرنے کے بنیادی تقاضوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے ،مرکزی خاتون واطفال ترقی وزارت کے ذریعے قائم کردہ اعلیٰ سطحی کمیٹی کی منظوری کے باوجود انسانی اعضاءریکیٹ کی جانچ نہیں کی گئی ۔نوکر کو راکشش بنا کر پھنسانے کا آسان طریقہ چنا گیا ۔نٹھاری کانڈ نے پورے دیش کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔نوئیڈاکے سیکٹر 31- میں واقع کوٹھی ڈی 05- میں رہتا تھا مہیندرسنگھ پندھیر اور اس کا نوکر سریندر کوہلی بنیادی طور سے وہ پنجاب کا رہنے والے پندھیر سال 2000- میں دہلی آیا تھا اور بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا ۔2003 میں وہ کوہلی سے ملا اور اسے نوکر رکھ لیا ۔اسی کے بعدبیوی بچے اسے چھوڑ کر چلے گئے ۔پندھیر اپنی کوٹھی پر کال گرل بلاتا تھا ۔ایک بار کوہلی نے وہاں آئی اےک کال گرل سے تعلق بنانے کو کہا تو اس نے کچھ ایسا کہہ دیا کہ جس سے کوہلی بھڑک گیا اور اس کو مار کر اس کی لاش نالے میں پھینک دی ۔ادھر 8فروری ،2005 کو 14 سالہ ایک لڑکی رمپا ہلدار کے غائب ہونے کی رپورٹ لکھائی گئی ۔اگلے ہی مہینے یعنی مارچ 2005 کے کچھ بچوں کو کوٹھی ڈی 5- کے پیچھے نالے میں ایک پلاسٹک بیگ ملا جس میں لاش کے ٹکڑے تھے ۔پولیس نے کسی جانور کا ڈھانچہ بتا کر معاملہ رفعہ دفعہ کر دیا ۔بہرحال ہنگامہ بڑھا تو جانچ سی بی آئی کو سونپ دی گئی اس کے بعد 19 لڑکیوں کے ڈھانچے ملے ۔سی بی آئی نے پندھیر اور کوہلی کو گرفتار کر لیا ۔جانچ میں پتہ چلا سبھی قتل کوہلی نے کئے ہیں وہ صبح 9.00 بجے سے شام 4.00 بجے کے درمیان ڈرائنگ روم میں قتل کرتا تھا پھر لاش کو سیڑھیوں سے باتھروم میں لے جا کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا تھا پھر کچھ ٹکڑوں کو پکا کر کھاتا بھی تھا اس کے بعد باتھروم صاف کرتا تھا ۔کوٹھی کے پیچھے سے کئی کپڑے اور جوتے بھی برآمد ہوئے تھے ۔18سال بعدبھی 18 معصوموں اور ایک عورت کو انصاف نہیں مل سکا ۔ان سبھی سے بدفعلی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔جسم کے اعضاءاور اس کے ڈھانچے نالے اور جھاڑیوں میں ملے تھے ۔جانچ یوپی پولیس سے سب سے بڑی ایجنسی سی بی آئی تک پہونچی ۔خود کے قبول نامہ پر سریندر کوہلی اور منیندر سنگھ پندھیر ملزم بنائے گئے ۔ٹرائل کورٹ نے پھانسی کی سزا دی تھی لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے دونوں کو ثبوتوں کی کمی کے چلتے بری کر دیا ہے ۔یہ سوال ابھی بھی جواب مانگ رہا ہے کہ معصوموں کا قتل کس نے کیا ۔بے رحمی سے لاشوں کے ٹکڑے کس نے کئے ۔بدفعلی جیسی گھناو¿نی حرکت کس نے انجام دی۔شیطان کو تھے ۔پورے دیش کو جھنجھوڑ کر رکھنے والے اس معاملے کی شروعات میں پولیس نے جو مایوس کن رویہ دکھایا اور پھر جانچ ایجنسیوں کا کیسا رخ رہا ہے اسے جنتا کے بھروسہ کے ساتھ کھلواڑ نہیں تو کیا مانا جائے ۔انصاف ہونا ہی کافی نہیں ہوتے دکھانا بھی چاہیے ۔نٹھاری کے معصوموںکے ساتھ جو جرم ہوا اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس کا مجرم کوئی ہے ؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟