آرڈیننس کو بھی چنوتی دی جاسکتی ہے؟
مرکزی سرکار کی طرف سے دہلی حکومت کے اختیارات معاملوںمیں آرڈیننس لایا گیا ہے جس سے ایل جی کے پاس وہ سبھی اختیارات ہوںگے جو سپریم کورٹ سے تاریخی فیصلے کے بعد دہلی حکومت کو ملے تھے ۔ اب آگے کیا ہوگا کیوں کہ دہلی حکومت نے مرکز کی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے ۔اب معاملہ آگے کس شکل میں بڑھے گا فی الحال کہانہیں جا سکتا ۔ لیکن کچھ پرانے معاملوںپر نظر دالیں تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے ٹکراو¿ کے حالات میں کیا ہو سکتا ہے ۔سرخیوںمیں چھائے ایس سی ایس تی ایکٹ معاملے کے تحت درج معاملے میں پیشگی ضمانت کی سہولت کو ختم کرنے کیلئے مرکزی حکومت کے قانون کو سپریم کورٹ نے 10فروری 2020کو بحال رکھا تھا۔ اس ترمیمی ایکٹ کو ایکٹ 2018کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس کو اس نے جائز ٹھہرا یا تھا۔ دراصل 20مارچ 2018کو سپریم کورٹ نے ایس سی ایس ٹی کے گرفتار ی سہولت کو ختم کردیا تھا۔ اور پیشگی ضمانت کی سہولت دے دی تھی۔ ساتھ ہی ایف آئی آر سے پہلی شروعاتی جانچ کی سہولت رائج کردی تھی اس فیصلے کے بعد مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیلی کردی اور پہلے کے قانونی تقاضوں کو بحال کردیا ۔اس قانونی ترمیم کے تحت مرکزی حکومت نے پیشگی ضمانت کی سہولت کو ختم کر دیا تھا۔اس کے لئے مرکزی سرکار کے قانون ترمیم کو چنوتی دی گئی تھی۔ جس پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا اور مرکز کے قانون کو بر قرا ر رکھا ۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایم ایل لاہوٹھی بتاتے ہیں کہ دہلی سرکار کو آرڈیننس کو چیلنج دینے کا حق ہے کوئی بھی آر ڈیننس یا قانون جوڈیشل اسکروٹنی کے دائرے میں ہے ۔ جب بھی کوئی آر ڈیننس یا قانون ایوان میں بنتا ہے تو اسے سپریم کورٹ دیکھتی ہے کہ وہ قانون یا آرڈیننس آئین کے تقاضوں کے دائرے میں ہیں یانہیں؟ تما م ایس مثالیں ہیں جب مرکزی حکومت کے قانون کو چیلنج کیا گیا ہے ۔کئی بارہ جوڈیشل اسکروٹنی میں ٹکا ہے اور کئی بار نہیں ٹک پایا۔ سپریم کورٹ کے وکیل جیاننت سنگھ بتاتے ہیں سپریم کورٹ جب بھی کوئی فیصلہ دیتے ہیں تو وہ آئین کی تشریح کرتی ہے آئین میں کو آرٹیکل یا سہولت ہے اس کے مطابق ہی سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سناتی ہے ۔ موجودہ معاملے میں بھی دفعہ 239AAکے تحت جو آئینی سہولت ہے اس کو سپریم کورٹ کے ان جج صاحبا ن کی بنچ نے تشریح کی اور مفصل غور خوض کے بعد ہی فیصلہ دیا ہے کہ ایل جی کو تین امور کو چھوڑ کر باقی معاملوںمیں وہ دہلی سرکار کی صلاح کوماننے کیلئے پابند ہیں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ مرکزی حکومت اس نئے آر ڈیننس میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں