سرکارکی نکتہ چینی جرم نہیں ہے!

جامعہ تشدد معاملے میںدہلی کی نچلی عدالت نے شرجیل امام سمیت کئی لوگوں کو الزام سے بری کرتے ہوئے سخت رائے زنی کی ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں کو احتجاج کرنے اور بغاوت کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوگا۔ عدم اتفاق اور کچھ نہیں بلکہ سیکشن 19کے اظہار رائے کی آزادی کے پیش قیمت اخلاقی حق کی ہی شکل ہے جو واجب روک کے دائرے میں ہے۔ عدم اتفاق رائے اور احتجاج و مظاہرئے کو لیکر پہلے بھی سپریم کورٹ کئی بار اپنی رائے زنی کرچکا ہے۔ 28اگست 2018کو بھیما کوریگاو¿ں تشدد معاملے میں پانچ انسانی حقوق رضاکاروں کی گرفتاری کے معاملے میں سپریم کورٹ نے سخت رائے زنی کی تھی۔ چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ معاملہ بڑا ہے اور الزام ہے کہ آپ نااتفاقی کو کچلنا چاہتے ہیں اور عدم اتفاق جمہوریت کا سیفٹی والووہے ۔اور اگر آپ اس کی زجازت نہیں دیںگے تو پریشر والو پھٹ جائے گا۔ 3جون 2021کو سپریم کورٹ نے صحافی ونود دعا کے خلاف ملک سے بغاوت کے کیس کو خارج کردیا تھا اور تب کہا کہ سرکار کی تنقید کا دائرہ طے ہے اور اس دائرے میں نکتہ چینی ملک کی بغاوت نہیں عدالت نے کہا کہ کیداناتھ سے متعلق بعد میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا اس فیصلے کے تحت ہر صحافی تحفظ کا حقدار ہے۔ ہماری رائے ہے کہ عرضی گزار ونود دعا پر ملک سے بغاوت اور دیگر دفعات کے تحت ناانصافی ہوگی ۔ کوئی بھی قانونی کاروائی سیکشن 19 (1)(A) کے تحت نظریہ اظہار رائے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہوگی۔ 1962میں دئے گئے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ شہری کو سرکار کے کام کاج پر نکتہ چینی کرنے ،رائے زنی کرنے کا حق ہے اور تنقید کا دائرہ طے ہے اور اس دائرے میں نکتہ چینی کرنا ملک سے بغاوت نہیں ہے۔لیکن سپریم کورٹ نے یہ بھی صاف کیا تھا کہ تنقید ایسی نہ ہو کہ لاءاینڈآرڈر بگڑنے یا تشدد پھیلانے کی کوشش ہو ۔ 1962میں سپریم کورٹ نے کیدارناتھ بنام بہار سرکار کے مقدمے میں اہم ترین فیصلہ دیا تھا۔ عدالت نے اس وقت کہا کہ تھا کہ سرکار کی تنقید یا پھر انتظامیہ پر تبصرہ کرنے سے ملک سے بغاوت کرنے کا مقدمہ نہیں بنتا ۔ 1995میں بلونت سنگھ بنام اسٹیٹ آف پنجاب کیس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صرف نعرے بازی سے بغاوت نہیں ہو سکتی اور سرسری طریقے سے کوئی نعرے بازی کرتا ہے تو وہ ملک سے بغاوت نہیں مانی جائے گی۔ اور یہ تبھی مانی جائے گی جب نعرے بازی کے بعد تنازعہ کھڑا ہو جائے اور فرقے میں نفرت پھیلے ۔3مارچ 2021کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ سرکار کی رائے سے الگ نظریہ کو اظہارئے رائے ملک سے بغاوت نہیں ہے، عدالت نے آرٹیکل 370پر جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے بیان پر ان کے خلاف داخل عرضی کو خارج کرتے ہوئے رائے زنی کی تھی ۔عرضی میں کہا گیا تھا کہ فاروق عبداللہ نے 370کو بحال کرنے سے متعلق جو بیان دیا ہے وہ بغاوت ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟