بہار کا شراب مافیہ !

اس دن پارٹی میں کسی نے دے دیا ہم ہلکا سا پی لیے تو سر چکردینے لگا ۔کام چھوڑ کر چلے آئے ۔ہم ڈاکٹر کے پاس نہیں جا رہے تھے ، لیکن پھر یہ کانڈ ہو گیا ۔تو ماں رونے لگی تب ڈاکٹر کے پاس گئے بولے ایک مہینے آنکھوں میں تھوڑا کچھ دکھنے لگے گا ۔ستیندر مہتو بہار میں چھپرا کے بہرولی گاو¿ں کے ہیں ان کی آنکھیں عام انسانوں کی طرح نظر آتی ہیں لیکن زہریلی شراب سے آنکھوں کی روشنی چلی گئی ۔ستیندر 12 دسمبر کی شام پڑوس کے ایک گاو¿ں جنیو تقریب میں کام کرنے گئے تھے وہاں کسی نے انہیں شراب دے دی جسے پی کر ان کی طبیعت خراب ہو گئی بہرحال ادھر سارن کے کئی علاقوں میں زہریلی شراب نے موت کا قہر مچا دیا ۔مقامی رپورٹ کے مطابق بہرولی میں بھی زہریلی شراب سے کچھ لوگوں کی موتیں ہوئی ہیں ماں کی ضد پر ستیندر وقت پر ہسپتال چلے گئے تو جان بچ گئی لیکن ان کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی ۔مزدوری کر گزر بسر کرنے والے ستیندر کا خاندان اب کیسے چلے گا اس کا کچھ پتہ نہیں ہے لیکن وہ اب بھی شراب کے کاروباریوں کے بارے میں کچھ بتانا نہیں چاہتے شراب کہاں سے آئی اب یہ نہیں بتاو¿ں گا ۔ستیندر کے الفاظ کے پیچھے شراب مافیہ کا ڈر ہے یا قانون کا اس کو لیکر بھی وہ خاموش ہیں ۔لیکن زہریلی شراب سے متاثرہ سارن کے علاقے میں شراب کے اس ناجائز کاروبار کے بارے میں لوگ واقف ہیں ۔اشوماد پور کے سکھرا گاو¿ں کی انیتا دیوی کے ہاتھ مسلسل تھر تھرا رہے ہیں ان کے شوہر بکی مہتو پہلے گجرات کی ایک کمپنی میں کام کرتے تھے وہیں کی فیکٹری کا انٹری کارڈ دکھاتے ہوئے انیتا دیوی کچھ بتانے کی کوشش کررہی ہیں ۔لیکن بتا نہیں پارہی ہیں ۔ان کا تین سال کا بیٹا ہے وہ بول نہیں پاتا لیکن اسی عمر میں پتا کا وہ داہ سنسکار کررہا ہے ۔انیتا دیوی نے زندگی کے 22 سال بھی پورے نہیں کئے لیکن پتی چھوڑ کر چلاگیا ۔بکی مہتو کی کچی چھونپٹری میں بیوی تین بچے اور بوڑھے ماں باپ رہ گئے ہیں ۔زہریلی شراب نے ہی 25 سالہ بکی کی جان لے لی ہے ۔اب ان کے پاس ہر مہینے سرکار کی طرف سے مفت ملنے والا گیہوں تک نہیں ہے ۔بکی کے والد لال بابو مہتو کہتے ہیں ایک کلو میٹر دور بہورئیا میں دارو بکتا ہے وہیں 14 تاریخ کو دارو پی کر گھر آیا اور کہنے لگا طبیعت خراب لگ رہی ہے ۔اس کو ڈاکٹر کے پاس جانے کو کہا لیکن نہیں گیا ۔رات میں طبیعت بگڑی اور بے چینی ہونے لگی ۔ایمبولینس میں 15 تاریخ کی صبح ہی راستے میں موت ہو گئی ۔ان کا کہنا ہے نکلی شراب کیسے آتی ہے یہ تو نتیش کمار ہی بتا سکتے ہیں لیکن ادھر دارو کا ٹینکر آتا ہے ۔بہار میں یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ زیادہ تر شراب مافیہ سیاست دانوں ،سیاسی پارٹیوں ،کے آس پاس رہنے والے یہ کام کرتے ہیں تاکہ اس کی آڑ میں اپنا دھندہ چلا سکیں ۔بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کہہ چکے ہیں جو لوگ زہریلی شراب پی کر مارے گئے ان کے پریوارکو سرکار کی طرف سے کوئی معاوضہ نہیں ملے گا ۔اس شراب کانڈ میں مارے گئے زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے ۔ان میں زیادہ تر مزدوروں کی ہے ۔یہاں کئی ایسے پریوار ہیں جن کے پاس کھانے پینے کی قلت ہے اور اب وہ قرض میں ڈوب گئے ہیں اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا ۔سال در سال یہی قصہ دہرایا جاتا ہے ۔شراب بندی میں الٹا ان مافیاو¿ں کی مدد کی ہے ۔دکھ کی بات یہ ہے اس کا شکار ہونے والے زیادہ تر غریب اور مزدور طبقے کے لوگ ہیں ۔وہ تو چلے جاتے ہیں پیچھے چھوڑ دیتے ہیں روتا بلکتا خاندان ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!