دھان کی کم از کم قیمت میں اضافہ کیا کسانوں میں خوشحالی لائے گا

مرکزی حکومت نے دھان کی کم از کم قیمت (ایم ایس پی)میں 200 روپے فی کوئنٹل کا اضافہ جو کیا ہے اس کا خیر مقدم ہے لیکن کیا اس سے کسانوں کو وہ فائدہ ہوگا جس کی ان کو امید تھی؟ دھان سمیت 14 خریف فصلوں کی مارجنل پرائس کو منظوری دے دی گئی ہے۔ پچھلے ایک سال سے لگاتارتحریک چھیڑے کسانوں کو اس سے کچھ توراحت ملے گی۔ سرکار نے دعوی کیا ہے کہ اس نے کسانوں کو ان کی پیداوار کی لاگت سے ڈیڑھ گنا دام دینے کا وعدہ پورا کردیا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پچھلے چار سال میں ایم ایس پی میں یہ سب سے بڑا اضافہ ہے لیکن اسے سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشوں پر عمل درآمد کہنا شایدصحیح نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے دھان میں ایم ایس پی میں سب سے زیادہ 170 روپے فی کوئنٹل کا اضافہ یوپی اے سرکار نے2012-13 میں کیا تھا ۔ ایم ایس پی وہ قیمت ہے جس پر سرکار کسانوں سے ان کی پیدا اجناس خریدتی ہے۔ سرکاریں 1965 سے ہی مختلف شکلوں میں ایم ایس پی میں اضافہ کا اعلان کرتی رہی ہیں حالانکہ موجودہ سرکار کے پچھلے چار برسوں میں اس کا اوسطاً کافی کم رہا۔ حکومت نے دراصل اس چناوی برس میں کسر پوری کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اپوزیشن نے اس اضافہ کو ناکافی بتایا ہے اور ایم ایس پی طے کرنے کے فارمولہ پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ دراصل فصلوں کی کل لاگت کے فارمولہ پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ فصلوں کی کل لاگت کے تجزیہ میں بیج، کھاد، کیڑے مار دوائیں، مشینری ،مزدوری شامل تو ہے لیکن زمین کی لگان کا اس میں حساب نہیں رکھا گیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کسان منظم لاگت طے کرنے کی بنیاد بدلنے کی مانگ کرتے آرہے ہیں۔ اس میں ایک کیٹیگری ہوتی ہے سی(2) 1 ۔ اس میں دیگر درپرد لاگت کے ساتھ زمین کی قیمت اور پریوار واد کے لوگوں کی لیبر اور محنت وغیرہ شامل کرکے شمارہوتا ہے۔ یہ مانگ ہے جس پر کسان سنگٹھن بنے رہیں گے۔ رہا سوال چناوی وعدہ کا تو این ڈی اے سرکار نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دے کر کہا تھا کہ ذرعی پیداوار کی لاگت سے ڈیڑھ گنا دام دینا ممکن نہیں ہے۔ اب وہی سرکار ایم ایس پی کا نیا اعلان کرکے اپنے وعدہ پر عمل بتا رہی ہے۔ کچھ مہینوں بعد کئی ریاستوں میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں اور اگلے سال لوک سبھا چناؤ ہیں ایسے میں سرکار کو لگنے لگا ہے کسانوں کی ناراضگی کو نظرانداز کرنا سیاسی طور سے کافی خطرے بھرا ثابت ہوسکتا ہے۔ ایم ایس پی کے اعلان کے بعد بھی کئی جگہوں پر اس شرح پر خرید کے لئے کسانوں کو آندولن کرنا پڑتا ہے۔ سوامی ناتھن آیوگ کی سفارش پر عمل صحیح معنوں میں تبھی مانا جائے گا جب ذرعی پیداوار کی لاگت کا حساب سی (2) 1 کے پیمانے سے جوڑا جائے۔ دیش کا اَن داتا ہی جب مطمئن نہیں ہو تو صحیح معنوں میں دیش میں خوشحالی نہیں آسکتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!