متھرا کے کنس رام ورکش یادو کا خاتمہ کیسے ہوا

متھرا میں کنس لیلا کاماسٹر مائنل رام ورکش یادو مرنے کے بعدبھی تنازعوں میں بنا ہوا ہے۔ کیا رام ورکش زندہ ہے؟ کیا پولیس نے اسے جواہر باغ کانڈ میں اور اس کے خاندان کو زندہ پکڑ لیا تھا اور بعد میں اسے مار ڈالا؟ اگر ایٹہ ضلع ہسپتال میں بھرتی ایک خاتون کی بات مانیں تو وہ دعوی کررہی ہے کہ رام ورکش زندہ ہے۔ پہلی بار گولی لگنے کے بعد جیسے ہی معاملہ خاموش ہوا وہ اپنے خاندان کو لیکر کہیں چلا گیا۔ ضلع ہسپتال میں بھرتی مہلا دھرم وتی کا دعوی ہے کہ رام ورکش مرا نہیں ہے۔ دھرم وتی کو امید ہے کہ وہ ابھی بھی ان کو بچانے آئے گا۔ دوسری طرف ایک سپاہی کی بات پر اگر یقین کریں تو وہ دو جانبازوں کی شہادت کے بعد بھی اپنے ہی محکمے کو کٹہرے میں کھڑا کررہا ہے۔ وہ خود سی بی آئی جانچ کو ضروری بتا کر پولیس کے عمل پر سنگین سوال اٹھا رہا ہے۔اتنا ہی نہیں اس کا دعوی یہ بھی ہے کہ پولیس نے رام ورکش یادو کو پریوار سمیت زندہ پکڑ لیا تھا بعد میں اسے مارا گیا۔ سپاہی جس کی بات چیت ریکارڈ پرہے ، کی باتوں میں کتنی سچائی ہے یہ دیگر بات ہے اس کا کہنا ہے کہ پولیس افسروں نے اس کارروائی کو چھپایا۔ کارروائی صبح کرنی چاہئے تھے۔ بھیڑ کی تعداد کا اندازہ آسانی سے لگ جاتا۔ اس نے دعوی کیا کہ افسروں کی موت کے بعد پولیس نے رام ورکش سمیت 27 لوگوں کو پکڑ لیا تھا۔ سپاہی کا دعوی ہے کہ سبھی کو پولیس لائن میں لگا کر ایڈیٹوریم میں لایا گیا، لکھنؤ کے ایک افسر کو یہ سب بھی بتایا گیا۔ بقول سپاہی اس کے بعد سبھی کو مار کر آگ میں پھینک دیا گیا۔
رام ورکش کی مارنے کے بعدبھی شناخت نہیں کی گئی۔اس کو سازش کے تحت دو دن لاپتہ دکھایاگیا۔ پانچ ہزار روپے کا انعام اعلان کرنے کے بعد اسے مرا ہوا دکھا دیا گیا۔ سپاہی کا کہنا ہے کہ جواہر باغ میں کافی لوگوں کی جانچ لی گئی۔ کچھ کو مردہ خانے میں ہی گلا دیا گیا۔ جواہر باغ کے نزدیک بھوئی کالونی کے ایک دوکاندار کا کہنا ہے کہ پولیس نے کارروائی کے دوران اندر کسی کو نہیں جانے دیا۔ ادھر جواہر باغ میں ہوئی واردات کی سی بی آئی جانچ کے لئے الہ آباد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے۔ اشونی اپادھیائے کی طرف سے داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت و ضلع انتظامیہ کی لاپرواہی کے سبب جواہر باغ کی واردات ہوئی جس میں دودرجن سے زیادہ لوگوں کی جان چلی گئی۔ ایک آئی پی ایس افسر و ایک دروغہ کی موت ہوگئی۔ مرکز نے اس واردات کی سی بی آئی جانچ کے لئے تعاون کی بات کہی لیکن ریاستی حکومت نے اس کی سفارش نہیں کی۔ کہا گیا ہے کہ واردات میں حکمراں پارٹی کے کئی بڑے نیتاؤں کی شمولیت ہے۔ ایسے میں سیاسی دباؤ کے چلتے مقامی پولیس سے واردات کی منصفانہ جانچ کی امید نہیں ہے اس لئے واردات کی جانچ سی بی آئی سے کرایا جانا ضروری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!