آئی پی ایل سے ڈھائی گنا بڑھا ہے سٹے بازی کا کھیل

پچھلے دو دنوں سے بھارت ہی نہیں پوری دنیا کے کرکٹ شائقین کی نظریں آئی پی ایل۔6 میں اسپاٹ فکسنگ تنازعے پر لگی ہوئی ہیں۔ حالانکہ اس سے فیصلہ کن دور میں پہنچ رہے آئی پی ایل میں شائقین کا جوش کم نہیں ہوا اور ہونا بھی نہیں چاہئے۔ مٹھی بھر لوگوں کے سبب پورا کھیل ہی برا نہیں بن جاتا۔ ہم ان لوگوں سے قطعی متفق نہیں ہیں جو یہ مانگ کررہے ہیں آئی پی ایل ٹورنامنٹ پر پابندی لگادو۔ اگر امتحان میں چند بچے نقل کرتے پکڑے جائیں تو کیا آپ امتحان کا سسٹم بھی بندکردیں گے؟ آئی پی ایل ایک تفریح کا ذریعہ ہے۔شام کے تین چار گھنٹے مزے سے گزر جاتے ہیں ۔ہاں اس کھیل کو بدنام کرنے والوں پر ضرور شکنجہ کسا جانا چاہئے اور انہیں بے نقاب کرکے مستقبل میں ایسا گناہ پھر نہ ہوسکے یہ یقینی بنانے کے ٹھوس قدم اٹھانے چاہئیں۔ دہلی پولیس نے دعوی کیا ہے کہ پوچھ تاچھ کے دوران سری سنت چندیلا اور انکت چوہان نے اسپاٹ فکسنگ کا گناہ قبول کرلیا ہے۔ ادھر راجستھان رائلس کے دو بلے بازوں کے نام بھی شبے کے گھیرے میں آگئے ہیں ان میں ایک غیرملکی ہے۔ حالانکہ پولیس نے ابھی اس کا انکشاف نہیں کیا۔ اس کے علاوہ آئی پی ایل۔6 میں تقریباً15 میچ اور آئی پی ایل5- میں پانچ میچوں کی بھی جانچ کی جارہی ہے۔ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے جب اسپارٹ فکسنگ میں سری سنت کو اس کے دوست جیجو اور کچھ لڑکیاں بھی تھیں، کے ڈسکو سے وہ ساتھ نکلے تو سری سنت کے منہ سے نکلا۔ ’اوہ نو‘ یہ لڑکیاں صرف دلالوں کے ذریعے سری سنت اور اس کے دوست جیجو کے ساتھ جانے کے لئے دستیاب کرائی گئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سری سنت ہیرو سے ویلن بن گئے۔ ٹی ۔ ٹوئینٹی کی پہلی عالمی چمپئن شپ کیا آپ کو یاد ہے؟ چھ سال پہلے پاکستان کے خلاف بھارت میں فائنل میں مصباح کا کیچ اسی سری سنت نے پکڑا تھا۔ بھارت کامیاب ہوا، اس کیچ سے سری سنت پورے دیش میں راتوں رات ہیرو بن گئے۔ وہیں سری سنت آج پیسوں کے لالچ میں ویلن بن گئے۔ سابق کرکٹر و بھارت کے سابق کپتان سنیل گواسکر کا کہنا ہے کہ بورڈ کو سچن ،کمبلے، دھونی جیسے سینئر کھلاڑیوں سے بات کرکے سسٹم میں بہتری لانی چاہئے جس سے لڑکوں کو بھٹکنے سے روکا جاسکے۔ ان کو ایک ساتھ آنا چاہئے۔ انہیں پتہ ہے کہ میدان میں کا ہورہا ہے۔ وہ محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ وہ اس سسٹم کا حصہ ہیں۔ آئی پی ایل کے جوائنٹ سکریٹری انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ سابق کرکٹر بھی آئی پی ایل سے کروڑوں روپے کما رہے ہیں اور پھر بھی اس کی تنقید کرتے ہیں۔ اگر وہ اسے شاید خراب پیسہ مانتے تو اس سے ملنے والی رقم نہ لیتے۔ ہم برطانوی دور کے قانون پر منحصر ہیں۔ اس میں بدلاؤ کی ضرورت ہے۔ بی سی سی آئی نے کہا کہ وہ کھیل سے کرپشن کی برائی کو ختم کرنے کے لئے کام کررہے ہیں لیکن خود کی کچھ حدود ہیں۔ ایسے میں اسپارٹ فکسنگ تنازعے کے سبب کسی کو آئی پی ایل کی ساکھ پر سوال نہیں اٹھانا چاہئے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹی ۔ٹوئنٹی کی مقبولیت کے پیچھے اس کا وہ ماڈل ہے جس میں کھیل اور تفریح ایک دوسرے میں سما گئے ہیں لیکن اس میں ہورہی مسلسل دولت کی بارش آج اس کے وجود کے آگے سوال کھڑا کرنے لگی ہے۔ شکر ہے بہت سی ٹیموں اور سینکڑوں کھلاڑیوں کی موجود گی کے باوجود سری سنت مٹھی بھر ہی داغی پکڑے گئے ہیں اس لئے کالے کارناموں کا ٹھیکرا کھیل یا کھلاڑیوں پر پھوڑنے کی جگہ اس جگہ کا علاج کیا جائے جہاں سے خاموشی اور اشاروں سے ہورہی چھاؤں کو بنایا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ میچ فکسنگ کا معاملہ آتنکیوں کی حرکتوں کو ٹٹولنے کے وقت پکڑ میں آیا جس میں بھارت مخالف دہشت گرد تنظیم کا سرغنہ داؤد ابراہیم کی سیدھی مداخلت دیکھنے کو ملی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ40 ہزار کروڑ روپے کے اس کالے کاروبار کے تار پاکستان اور ممبئی سے سیدھے جڑے ہیں۔ اس گروہ کے شاطر بڑے قاعدے سے کھلاڑیوں پر ریسرچ کرتے ہیں اور کمزور کڑی پاتے ہیں انہیں شکار بنا لیتے ہیں۔ سری سنت نے یہ کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ اس کی پیسے کی ہوس آج اسے ایک خطرناک دہشت گرد کا ساتھی بنا دے گی۔ ممکن ہے فکسنگ کا کھیل بیرونی ممالک سے ہورہا ہے لیکن کئی لوگ یہ تجویز رکھتے ہیں کے آئی پی ایل میں شامل ہونے والے کھلاڑیوں کو اخلاقی تعلیم یعنی ایسے اصول بتائے جائیں کے وہ لالچ میں نہ پڑیں لیکن جہاں پیسے کے کھیل کا بول بالا ہو وہاں اس طرح کی نصیحت کی حقیقت سے آنکھ چرانے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ کرکٹ کو شرمسار کرنے والے ایسے ہتھکنڈوں پر روک لگانے کے لئے کھیلوں کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیموں کو زیادہ چوکسی برتنے کی ضرورت ہے جتنی کے کرکٹ میں بیٹنگ کے سہارے معاملے آج تک پولیس نے پکڑے ہیں ان کھیل تنظیموں نے کیوں نہیں پکڑے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!