بند کرو یہ’ امن کی آشا ‘اور بھائی چارے کی بات

ہم تو پاکستان کی طرف امن کا ہاتھ بڑھاتے نہیں تھکتے اور ہر بار جواب میں ہمیں بربریت اور غیر انسانی برتاؤ پاکستان کی جانب سے جواب میں تحفے کی شکل میں ملتا ہے۔ وہ بھارت ہمارے مہمان بن کر آتے ہیں اور ہمارے گھر میں ہی ہمیں گالیاں دے کر چلے جاتے ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ یہ ’امن کی آشا‘ جیسے بے تکے ایک طرفہ پروگرام کب تک برداشت ہوتے رہیں گے؟ ایک بار پھر پاکستان کی بربریت اور ظالمانہ چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔ پاکستان کے قریب15 فوجی منگل کو ہندوستانی سرحد میں واقع کونچ کے مینڈھر سیکٹر میں قریب100 میٹراندر تک گھس آئے۔ انہوں نے یہاں ہندوستانی گشتی پارٹی پرحملہ بول دیا اور دو بھارتیہ جوانوں کوگلا کاٹ کر مار ڈالا۔ انہوں نے ان کی لاشیں ادھر ادھر پھینک دیں۔ ایک فوجی کا سر بھی حملہ آور اپنے ساتھ لے گئے۔ کارگل حملے (1999) کے بعد یہ ممکنہ پہلا موقعہ ہے کہ جب پاکستانی فوج نے اس طرح سے ہندوستانی سرحد میں دراندازی کی ہے۔حال ہی میں پاکستان فوج نے کیپٹن کالیا سے غیر انسانی اور بربریت برتاؤ کی بات کئے جانے کے معاملے کو ان کے والد نے اٹھایا تھا۔ پاکستان نے تب بھی اس کی تردید کی تھی اور اب بھی وہی کررہے ہیں۔ ہر بار وہ کہہ دیتے ہیں یہ پاک فوج کی کرتوت نہیں ہوسکتی۔ کچھ ’غیر ملکی عناصر‘ نے ایسا کیا ہوگا۔ ہم سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر یہ نان اسٹیٹ ایکٹر ہیں تو یہ کس کی زمین سے کام کررہے ہیں؟ انہیں لائن آف کنٹرول یا بارڈر تک کون پہنچاتا ہے؟ اگر وہ پاکستان میں موجود ہیں تو انہیں گرفتار کر ہمیں کیوں نہیں سونپ دیا جاتا؟ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ بھارت میں کسی بھی جوابی سخت کارروائی کرنے کا دم نہیں ہے۔ ہم نئی دہلی میں واقع پاک ہائی کمشنر کو بلا کر ملامتی ریزولیشن پہنچادیں گے اور بات رفع دفع ہوجائے گی۔ اس بار بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملے گا ۔ چاہے معاملہ26/11 کے قصورواروں کا ہو، چاہے لشکر طیبہ کے بڑھتے اثر کا ہو، ہر بات سے پاکستان انکارکردیتا ہے۔ میں نے انگریزی (ہالی وڈ)کی ایک فلم دیکھی تھی۔ فلم کا نام تھا ’ڈرٹی انجن‘ اس فلم میں امریکی فوج نے ایک پلان بنایا کہ ان قیدیوں کو جو خونی ہوں، درندے ہوں ، یا مجرم ہوں یا تو پھانسی کے پھندے پر لٹکانے والے ہوں یا آبروریزی یا مرڈر کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہوں، ان کو اکٹھا کرکے بلایا اور امریکی فوجی کمانڈر نے ایک پرپوزل دیا آپ یہیں پھانسی پرلٹکو گے یا جیل میں سڑ جاؤں گے۔ اگر آپ تیار ہوں تو ہم آپ کو ٹریننگ دیکر دشمن دیش (جرمنی) میں اتاردیں گے۔ آپ کا کام ہے زیادہ سے زیادہ جرمن افسروں کو مارنا۔ اگر آپ اس مشن میں کامیاب ہوجاتے ہو اور زندہ بچ کر واپس آتے ہو تو آپ کی باقی سزا معاف کردی جائے گی۔ وہ سبھی تیار ہوجاتے ہیں۔ کیا ہم بھی ایسا کچھ کرسکتے ہیں۔ ہم بھی ان خونی درندوں کو یا آبروریزی کے قصورواروں کو ایل او سی کے اس پار بھیجیں اور ان نان اسٹیٹ ایکٹروں کا کام تمام کروائیں۔ ہر بار ایسا کام کرنے کے لئے حوصلہ چاہئے۔ گڈس چاہئیں۔ ہمیں اس سرکار میں یہ نظر نہیں آتے۔ ہم ان بہادر شہید جوانوں کو اپنی شردھانجلی دیتے ہوئے امید کرتے ہیں کہ ان سے اس جانوروں جیسے برتاؤکے قصورواروں کو ضرور سزا دلائیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!