آسا رام کہاں کا سنت ہے؟ یہ تو خطرناک بہروپیاہے

دہلی میں درندگی اور اس کے بعد پیدا ناراضگی پر بیشک بیانات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ آندھرا پردیش پردھان بودساستیہ نارائن اور صدر کے صاحبزادے ابھیجیت مکرجی اور مدھیہ پردیش کے بھاجپا وزیر کیلاش وجے ورگیہ سمیت آدھا درجن سے زائد لیڈروں کی زبان مریادا کو بھول چکی ہے اس کڑی میں اب اپنے آپ کو خود ساختہ روحانی گورو کہنے والے آسا رام باپو کا نام بھی جڑ گیا ہے۔ کہنا ہوگا اسبات تو انہوں نے حد ہی کردی اور لکشمن ریکھا تک پار کرڈالی۔ اب سنئے اپنے آپ کو سنت کہنے والا یہ بہروپیا کیا کہتا ہے۔ جب لڑکی نشے میں چور چھ لوگوں کے چنگل میں پھنس گئی تھی تو اسے بھگوان کا نام لے کر کسی ایک کا ہاتھ پکڑ کر کہنا چاہئے تھا میں آپ کو اپنا بھائی مانتی ہوں۔ اس کے بعد ان کے پیڑ پکڑتی تو اس کے ساتھ ایسا حادثہ نہیں ہوتا۔ غلطی ایک طرف سے نہیں ہوتی ہے اگر لڑکی دھارمک ریتی رواج کو ماننے والی ہوتی تو وہ اس بس میں چڑھتی ہی نہیں۔ آسا رام باپو کے اس بے تکے بیان کی چوطرفہ نکتہ چینی ہونا فطری ہی تھا۔ ان کے بیان کو لیکر لوگوں میں زبردستی ناراضگی ہے۔ آسا رام باپو کے بیان سے متاثرہ لڑکی کے والد بہت مایوس ہیں۔ بلیا میں انہوں نے بات چیت میں کہا آسا رام باپو سنت نہیں وہ بہروپیا ہیں۔ اگر ان کی خود کی بیٹی ہوتی تو انہیں درندگی کے درد کا احساس ہوتا۔ میری بیٹی نے سرنڈر کرنا نہیں سیکھا تھا۔ اس نے آخری سانس تک بہادری کے ساتھ درندوں سے لڑ کر جان دی ہے اس کا مجھے فخر ہے۔ آسام رام باپو کو اس طرح کی رائے زنی نہیں کرنی چاہئے۔ ان کے بیان سے ہم بیحد دکھی ہیں۔ سنت کی ایک مریادا ہوتی ہے جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی ہے۔ ہمیں اپنی بیٹی گنوانے کا ملال نہیں ہے۔ وہ عزت کے ساتھ جینا چاہتی تھی اور اس نے اپنی قربانی دی۔ آسارام باپو کا بیان نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ ہماری رائے میں تو ان کی ذہنیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ جس کا شکار اکثر عورتوں کو ہونا پڑتا ہے۔ ان سے پہلے بھاجپا کے کچھ لیڈر اور آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت بھی عورتوں کو تہذیب اور کنبہ جاتی ذمہ داری کا پاٹھ پڑھا چکے ہیں۔ جنتا دل (یو) کے لیڈر شرد یادو نے آبروریزی اور جنسی چھیڑ چھاڑکے واقعات کی جو تشریح کی ہے اس نے تو انہیں کھاپ پنچایتوں کے قریب ہی لاکر کھڑا کردیا ہے۔ دراصل یہ وہ ذہنیت ہے جو عورتوں کی خود کفالت اور ان کے آزادانہ نظریئے کو قبول نہیں کرپارہی ہے۔ یہ حالت تو تب ہے جب بھارت کی30 فیصدی سے بھی کم عورتیں کسی روزگار سے جڑی ہوئی ہیں۔ دہلی کے واقعے کو لیکر تنقید کرنے والے چین میںیہ اعدادو شمار 70 فیصدی سے اوپر ہے۔ اپنے آپ کو سنت کہلانے والے آسا رام ہمیشہ تنازعات میں گھرے رہے ہیں۔ 2008ء میں ان کے آشرم میں دو لڑکوں کی پراسرار موت سے کبھی پردہ نہیں اٹھ سکا۔2009ء میں ان کے ایک چیلے راجو کنموچک نے ان پر جنسی استحصال کے الزام لگائے تھے۔ مہندرو چاولہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے آشرم کے ایک ملازم نے آسارام کے بیٹے نرائن سائیں پر الزام لگایا کہ وہ مردہ لاشوں پر جادو ٹونا کرتا ہے۔آسا رام پر موٹیرا میں 67 ہزار مربع کلو میٹر زمین ہڑپنے کے الزام لگے ہیں۔ ہم تو مانتے ہیں کہ وہ سنت کے کپڑے پہنے ہوئے ایک خطرناک بہروپیا ہے جس کا جلد سے جلد پردہ فاش ہونا چاہئے۔ یہ کہاں کا سنت ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

  1. Anil sir main pura tarhan aapki baat aur soch se ittefaq karta hoon aur ummed karta hoon ke aap aise logon ke khilaf aik muhim zarur chalayenge aur sabse pehle is kam aur muhim main main aapke sath rahunga.

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!