بینی پرساد جیسے دوست ہوں تو کانگریس کو دشمنوں کی ضرورت نہیں


کانگریس میں بینی پرساد ورما جیسے دوست ہوں تو انہیں دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اترپردیش کے اکھڑ نیتا ہیں جو کبھی سماج وادی پارٹی میں ملائم سنگھ یادو کے سب سے قریبیوں میں سے ایک تھے، جو بعد میں کانگریس میں آگئے۔ اب اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے وہ زیادہ ہی جٹ گئے ہیں۔ پروانچل میں بڑا ووٹ بینک رکھنے والے یہ پچھڑے ورگ میں پیٹ رکھنے والے بینی پرساد پچھلے کچھ دنوں سے اپنے متنازعہ بیانوں کی وجہ سے سرخیوں میں بنے ہوئے ہیں۔ اپنے اکھڑ مزاج کے لئے وہ جب سپا میں بھی تھے تب بھی وہ ملائم سے بھڑ جاتے تھے لیکن مضبوط کرمی ووٹ بینک کو دیکھتے ہوئے ملائم کو بھی انہیں منانا پڑتا تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ وہ سپا کو لات مار کر کانگریس میں داخل ہوگئے۔ اب وہ کٹر کانگریسی بن کر سب سے زیادہ نشانہ سپا پر ہی سادھ رہے ہیں۔ دہائیوں تک کانگریس مخالف راجدھانی کرتے رہے، بینی پرساد جب سے کانگریس میں شامل ہوئے ہیں تب سے اپوزیشن کی جم کر مخالفت کرتے ہیں۔ بھاجپا کو تو آئے دن فرقہ پرست ہونے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ اب جب سے کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے تعلقات خوشگوار ہوئے ہیں تب سے بینی پرساد کانگریسی نیتاؤں کو یہ احساس کرانے سے نہیں چوکتے کے ملائم سنگھ زیادہ بھروسے لائق نہیں ہیں کیونکہ ان کا ملائم سنگھ کا راج نیتک جیون راج نیتک دھوکے بازی کا ہی رہا ہے۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے وہ ایک درج سے زیادہ مثالیں ایک سانس میں ہی دے جاتے ہیں۔بینی بابو اس وقت منموہن منتری منڈل میں اسٹیل منتری ہیں۔ راہل گاندھی کے تمام زور کے باوجود ودھان سبھا چناؤ میں کانگریس کو خاص کامیاب نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہی بینی بابو تھے۔ بینی بابو کے متنازعہ بیانوں کی وجہ سے ہی پارٹی کی چناوی لٹیا ڈوبی۔ ہر مہینے وہ کوئی نہ کوئی نیا بونڈر کھڑا کردیتے ہیں۔ انہوں نے کہہ ڈالا کہ کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہوتی ہیں تو انہیں یہ کہہ کر بہت اچھا لگتا ہے کہ کیونکہ اس میں اناج پیدا کرنے والے کسانوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس نہ پسندیدہ تبصرے سے پوری اپوزیشن منتری جی کے خلاف متحد ہوگئی ہے۔ یہ تنازعہ ابھی گرم ہی تھا کہ بینی بابو نے ایک اور واویلا کھڑا کردیا۔ انہوں نے سوموار کو کہہ دیا کہ 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں راج نیتک مقابلہ راہل گاندھی بنام نریندر مودی کے بیچ ہوگا۔ ایسے میں سپا جیسی پارٹیاں اقتدار میں آنے کے منگیری لال چھاپ خواب سجائے بیٹھی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پچھلے دنوں سپا سپریموں ملائم سنگھ یادو نے یہ امید جتائی تھی اگلے لوک سبھا چناؤ میں کانگریس اور بھاجپا کے بجائے تیسرے مورچے کی سرکار بننے کے زیادہ آثار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اپنے سپہ سالاروں سے کہا تھا کہ اگر سپا کو لوک سبھا میں60 سیٹیں مل جاتی ہیں تو نئی سرکار کی قیادت کی صورت میں وہ آسکتی ہیں۔ اس رائے زنی کو لیکر بینی بابو نے سپا اور ملائم پر تلخ نقطہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے لگتا ہے کہ ملائم کچھ پگلانے لگے ہیں اور ان کی عقل بھی کچھ سٹھیانے لگی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک طرف کانگریس میں بینی بابو کی تازہ رائے زنی پر کیا رد عمل ہوتا ہے اور دوسری طرف سپا کیا جواب دیتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!