اوبامہ نے زرداری سے ملنے سے انکار کیا
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری ایتوار کی شام شروع ہوئی شکاگو میں نیٹو کانفرنس میں شرکت کرنے اس مقصد سے گئے تھے کہ شاید پاکستان اور امریکہ کے بگڑتے رشتوں میں تھوڑی بہتری آسکے اور دونوں کے آپسی رشتوں کو نئی راہ مل سکے لیکن زرداری صاحب کو کوئی خاطر خواہ کامیابی فی الحال ملتی نظر نہیں آئی۔ امریکہ کے صدر براک اوبامہ نے جناب زرداری صاحب سے ملنے سے انکارکردیا اور صاف کہہ دیا نیٹو سپلائی راستہ کھولنے پر معاہدے کے بغیر ملاقات ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ اور پاکستان کے درمیان جو کڑواہٹ ختم ہونے کی امیدیں پیدا ہوئی تھیں وہ بھی اب تاریک ہوگئیں۔ دوسری جانب افغانستان میں موجودہ نیٹو فورسز تک سپلائی کے لئے پاکستانی زمین کے استعمال کا معاملہ بھی پھنس گیا ہے۔وائٹ ہاؤس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اوبامہ نے زرداری سے ملنے کا وقت نہیں نکالا۔ زخم پر نمک چھڑکنے کی نیت سے اوبامہ نے جن ملکوں کا افغانستان میں فوج کو سامان کی سپلائی کے لئے شکریہ کیا ان میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا۔ اسے صاف طور پر پاکستان کو نظر انداز کیا جانا مانا جاسکتا ہے۔ پیر کے روز شکاگو میں ہوئی نیٹو کانفرنس کے دوسرے اور آخری دن براک اوبامہ نے کہا کہ میں صدر حامد کرزئی کے علاقہ مشرقی وسطیٰ اور روس کے حکام کو افغانستان میں بین الاقوامی سکیورٹی اور فورسز کو اہم راہ داری مہیا کروانے کے لئے خیر مقدم کرتا ہوں۔ امریکہ اور پاکستان میں تازہ کشیدگی پچھلے سال ایک پاکستانی سلالہ چوکی پر امریکی حملے میں 24 پاکستانی فوجی مارے جانے کی وجہ سے بنی ہوئی ہے۔ اس حملے کے بعد پاکستان نے اپنے ملک کے اندر نیٹو کے لئے سامان ڈھونے والے امریکی ٹرکوں کی آمدورفت پر روک لگا رکھی ہے۔ امریکہ نے اس امید سے زرداری کو نیٹو کانفرنس میں بلایا تھا کہ وہ پاکستان ۔افغانستان سرحد کو نیٹو کی سپلائی لائن کے طور پر کھولنے کے لئے راضی ہوجائے گا لیکن پاکستان نے اس سپلائی روٹ کو کھولنے اور اپنی سڑکوں کے استعمال کے بدلے تین شرطیں رکھیں۔ یہ ہیں پاکستانی فوجیوں کی موت کے لئے شارے عام طور پر معافی، پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی پالیسی پر نظرثانی اور پاکستانی سڑکوں کے استعمال کرنے کیلئے موجودہ فیس کو ڈھائی سو ڈالر سے بڑھا کر پانچ ہزار ڈالر کیا جائے۔ امریکہ پاکستان کی ان شرطوں کو ماننے کے موڈ میں نہیں لگتا اور دو روزہ اس نیٹو کانفرنس میں 28 ممبران سمیت50 ملکوں کے سربراہ مملکت اور نمائندوں سے حصہ لیا۔ نیٹو سپلائی کے اشو پر اوبامہ نے کانفرنس کے بعد کہا کہ ہمیں امید نہیں تھی کہ اس کانفرنس کے دوران نیٹو سپلائی کا تعطل دور ہوجائے گا لیکن ہم پاکستان کے ساتھ اس کو سلجھانے کیلئے حتی الامکان کوشش کررہے ہیں۔ براک اوبامہ نے کہا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان رشتوں میں تلخی آرہی ہے لیکن یہ ہمارے اور پاکستان دونوں کے حق میں ہے کے ہم مل کر کٹر پسندی کے خلاف کام کریں۔ حالانکہ اوبامہ نے یہ مانا کے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے سبب افغانستان میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آخری وقت میں شکاگو کانفرنس میں زرداری کو دعوت ملنے کے بعد لگنے لگا تھا کہ شاید اب دونوں ملکوں میں دوریا ں کم ہوجائیں گی لیکن ایسا ہوا نہیں۔ زرداری اس امید سے اوبامہ کے آبائی شہر شکاگو پہنچے تھے کہ شاید انہیں امریکی صدر سے سیدھے بات چیت کرنے کا موقعہ ملے۔ افغان صدر حامد کرزئی کو تو موقعہ مل گیا لیکن آصف زرداری کو نہیں ملا۔ جس تھوڑے سے وقفے کے لئے اوبامہ نے زرداری سے بات کی اس کے بارے میں کرزئی نے سی این این کو بتایا کہ یہ محض ایک فوٹو گراف کھنچوانے کا موقعہ تھا لیکن کشیدگی جاری ہے۔ امریکہ کو 2014ء تک افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا ہے اور ہمیں نہیں لگتا کہ پاکستان کی حمایت کے بغیر وہ ایسا کرسکے گا۔ اس لئے یہ نوراکشتی کچھ اور وقت تک جاری رہے گی اور سودے بازی ہوتی رہے گی اور آخر میں امریکہ کو ہی جھکنا پڑے گا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں