پاکستان میں ہندو جہنم کی زندگی بسر کرنے پر مجبور
Published On 17 March 2012
انل نریندر
پچھلے ہفتے ہندی کے روزنامہ 'ویر ارجن' میں ایک قاری کا خط شائع ہوا۔ اس میں بڑے جذباتی انداز میں پاکستان سے آئے ہندوؤں کی حالت بیان کی گئی ہے۔ میں قارئین کے لئے شری رمن گپتا، روہتاش نگر، شاہدرہ کا خط قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں تاکہ ہم پاکستان میں رہ رہے ہندوؤں کی حقیقی حالت کوسمجھ سکیں اور جان سکیں کے وہاں وہ کیسے زندگی بسر کررہے ہیں۔ رمن گپتا لکھتے ہیں ''چاہے کچھ بھی کرو صاحب ہمیں واپس پاکستان نہ بھیجو۔ وہاں ہم پر ظلم ڈھایا جاتا ہے، بہو بیٹیوں کی عصمت کو روندا جاتا ہے، ہمیں دشمن کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہاں ہماری زندگی جہنم ہوگئی ہے۔ہم پر رحم کیجئے صاحب، ہم پاکستان نہیں جانا چاہتے۔'' یہ فریاد ان 27 ہندو خاندانوں کی ہے جو پاکستان سے پریشان اور مایوس ہوکر بھارت میں پناہ لینے کیلئے آئے ہوئے ہیں۔ غازی آباد پولیس نے انہیں 16 دسمبر کو کڑاکے کی سرد رات میں 12.15 منٹ پر غازی آباد کے ڈاسنا دیوی مندر سے زبردستی بسوں میں ٹھوس کر واپس دہلی کے مجنوں کے ٹیلے پر بھیج دیاہے۔ ایک طرف تو ہمارے دیش کی حکومت مسلمانوں کو مختلف طرح کے ریزرویشن اور اپنا سرکاری پیسہ اور ہندوؤں کے مندروں کے پیسے کی طرح طرح کی اسکیمیں چلا کر اقتصادی مدد کررہی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے تقریباً چار کروڑ مسلمان دراندازوں کو راشن کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس بنا کر دے رہی ہے۔ ان کا ووٹر لسٹ میں نام تک چڑھا رہی ہے جبکہ مسلم دراندازوں کی وجہ سے کئی ضلع مسلم اکثریتی بن چکے ہیں۔ یہ جن علاقوں میں رہتے ہیں وہاں کے ہندوؤں کا انہوں نے جینا مشکل کردیا ہے۔ آئے دن وہاں دنگے ہوتے ہیں، ہندوؤں کی بہو بیٹیوں کا اغوا کر ان کے ساتھ زبردستی اور جبراً تبدیلی مذہب کیا جاتا ہے۔ کئی علاقوں میں تو ہندواپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ان دراندازوں کو دیش سے باہر نکالنے کیلئے بھارت کو سپریم کورٹ اور حکومت ہند کو بار بارکہا جاچکا ہے لیکن سرکار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کے برعکس پاکستان سے بھارت میں پناہ گزیں بھارت بھکت 27 ہندو خاندانوں کو کسی بھی قیمت پر مرنے کے لئے پاکستان واپس بھیجنے پر آمادہ ہے۔ یہ ہندو بھارت کو اپنا دیش، یہاں کے ہندو دھرم کو اپنا مذہب مانتے ہیں۔ بھارت ماتا کے یہ پتر اپنی بھارت ماتا کی گود کے لئے ترس رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کے بھارت اور پاکستان کا بٹوارہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی بنیاد پر کانگریس کے بڑے نیتاؤں کی رضامندی سے ہوا تھا۔ شری رمن گپتا کا یہ خط میں نے اس لئے پیش کیا تاکہ ہم پاکستان میں رہ رہے بچے کچے ہندوؤں کا دکھ درد سمجھ سکیں۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن ظہرہ یوسف نے ایک خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس کو اسلام آباد سے فون پر بتایا کے ہندو فرقہ ڈرا ہوا نہیں ہے۔۔۔ بلکہ ناراض ہے اور لاچار محسوس کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان صوبہ سندھ میں ہندو لڑکیوں کی زبردستی تبدیلی مذہب اور زرفدیہ کے لئے اغوا کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں جبری تبدیلی مذہب کا ایک معاملہ ہائی کورٹ میں آیا ہے جس میں ایک نوجوان خاتون نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے پاس واپس لوٹنا چاہتی ہے۔ انسانی حقوق رضا کار نے کہا کہ ہندو فرقے کے لوگ زبردستی تبدیلی مذہب کو ختم کرنے کیلئے قانون لانے کی مانگ کررہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی کل 17 کروڑ کی آبادی میں 5.5 فیصد ہندو لوگ ہیں۔ ان میں90 فیصدی سندھ میں رہتے ہیں جبکہ باقی پنجاب اور بلوچستان میں آباد ہیں۔ پاکستان میں کچھ سیاسی پارٹیاں اور ہندو تنظیم سندھ صوبے میں ہندو فرقے کی لڑکیوں کے اغوا اور ان کی تبدیلی مذہب کے خلاف سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق رضاکار کلب ، یوتھ ہندو فارم پاکستان اقلیتی کمیشن، عوامی جمہوری پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان ہندو پریشد نے ایتوار کو ان واقعات کے احتجاج میں کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا تھا۔ ان سبھی نے الزام لگایا ہے کہ میر پور مٹھیلو شہر میں ایک ہندو لڑکی ٹوئنکل کماری کا اغوا کا اس کا زبردستی مذہب تبدیل (ہندو سے اسلام) کرا دیا گیا۔ پاکستان ہندو پریشد کے کنوینر رمیش کمار بکوانی نے کراچی سے ٹیلیفون پر بتایا کہ دیش میں ہندوؤں کے لئے ماحول محفوظ نہیں ہے۔ ہندوؤں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوؤں کے اغوا کے واقعات کی تعداد 2007ء کے بعد سے بڑھی ہے ہر ایک برس ہمارے پاس تقریباً50 ہندو لڑکیوں کی تبدیلی مذہب کی شکایتیں آتی ہیں۔ حکومت ہند کو پاکستان سرکار سے یہ اشو ہٹانے چاہئیں ۔جہاں بھارت میں اقلیتوں کے لئے ان کی سلامتی کے لئے موزوں قانون ہیں تو پاکستان پر ایسا کرنے کے لئے کیوں نہیں دباؤ بنایا جاسکتا؟ رہا سوال بھارت میں پاکستان سے آئے ہندوؤں کو ہندوستان میں رہنے کی اجازت تو دی ہی جانی چاہئے۔Anil Narendra, Daily Pratap, Pakistan, Pakistani Hindu, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں