کشمیری عورتوں کا جہادیوں کیخلاف مارچ



Published On 16th September 2011
انل نریندر
آج کی تاریخ میں پاکستان بھی اتنا ہی جہادیوں سے پریشان ہوگا جتنی باقی دنیا۔ پاکستان کے اندر ان کٹر پسندوں نے ایک طرف حکومت کا ناک میں دم کررکھا ہے تو وہیں عام جنتا بھی ان سے عاجز آچکی ہے۔ آئے دن کراچی ، کوئٹہ،ایبٹ آباد میں دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ جب مسجدوں میں بم پھٹیں گے ، بچوں کا اغوا ہوگا تو جنتا میں سکیورٹی کا احساس کیسے ہوگا۔ پچھلے دنوں ایسی خبریں آئیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان جہادیوں سے جنتا کتنی تنگ آچکی ہے اور ان کی پاکستانی سکیورٹی ملازمین میں کس حد تک گھس پیٹھ ہوچکی ہے۔ بی بی سی نے بتایا پچھلے ہفتے سینکڑوں لوگوں نے پاکستان مقبوضہ کشمیر جسے آزاد کشمیر بھی کہا جاتا ہے، درجنوں عورتوں نے جہادی گروپوں کی بڑھتی ہوئی کرتوت کے خلاف مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ کٹر پسندوں کو علاقے سے نکالا جائے۔ یہ مظاہرہ کشمیرکی نیلم وادی میں ہوا۔ ایک ہفتے کے اندر وادی میں کٹر پسندوں کے خلاف یہ دوسرا مظاہرہ تھا۔ نیلم وادی جہادیوں کا خاص مرکز ہے اور مقامی لوگوں کے مطابق اسی علاقے سے جہادی دراندازی کرتے ہیں۔ یہ مظاہرہ ایسے وقت کیا گیا جب نیلم وادی میں کنٹرول لائن پر ہندوستان اور پاکستان کے فوجیوں کے درمیان گولہ باری کے واقعات ہوئے تھے جس میں چار پاکستانی سمیت پانچ لوگ مارے گئے تھے اور ایک بھارتیہ فوجی زخمی ہوگیا تھا۔عورتوں نے تقریباً چار کلو میٹر مارچ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ حالیہ دنوں میں نیلم وادی میں کٹر پسندوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور وہ مبینہ طور سے سرحد پار کرکے ہندوستان کے کشمیر میں داخل ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کٹر پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے انہیں تشویش ہے۔ کنٹرول لائن پر ہندوستان۔ پاکستان کی فوجوں کے بیچ پچھلے آٹھ سالوں سے جاری جنگ بندی خطرے میں پڑ سکتی ہے اور پھر سے گولہ باری شروع ہوسکتی ہے۔ مظاہرین مطالبہ کررہے تھے کہ کنٹرول لائن پر امن قائم کیا جائے۔ جہادی گروپوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اور انہیں وادی سے نکال دیا جانا چاہئے۔ ایک مظاہری خاتون چاند بی بی نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا ہمیں خطرہ ہے۔ مجاہدین کنٹرول لائن کے اس پارجاتے ہیں اور وہاں ہندوستانی فوج کو تنگ کرتے ہیں اور پھر بھارتیہ فوج ہم پر فائرنگ کرتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کنٹرول لائن پر 2003 میں ہوئی جنگ بندی کے بعد ان کی زندگی دشوار ہوگئی ہے۔ لیکن اب کنٹرول لائن پر گولہ باری کو وہ برداشت نہیں کرسکتے۔
گذشتہ ہفتے پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں دو خودکش دھماکے ہوئے۔ ان میں کم سے کم 26 لوگوں کی موت ہوگئی اور 82 لوگ زخمی ہوگئے۔ یہ حملہ نیم فوجی فورس کے ڈی آئی جی کے گھر کو نشانہ بنا کر کیا گیا تھا۔ مرنے والوں میں برگیڈیر کی بیوی، فوج کے چار افسر اور دو بچے بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے خبر آئی تھی کہ افغانستان میں آتنکیوں نے پاکستان کے30 بچوں کو یرغمال بنا لیا۔ یہ بچے عید کے موقعے پر پکنک منانے گئے ہوئے تھے اور انجانے میں افغانستان کے مشرقی صوبے کے کنارے چلے گئے تھے۔ ایسی حرکتوں کے واقعات پاکستان میں ہوتے رہتے ہیں۔ جنتا پریشان ہوچکی ہے۔ دکھ اس بات کا ہے پاکستان حکومت کا کنٹرول آہستہ آہستہ ڈھیلا ہوتا جارہا ہے اور کٹر پسند حاوی ہوتے جارہے ہیں۔ کشمیری خواتین نے پاکستانی عوام کے درد کو ظاہر کرنے کی ہمت دکھائی ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Jammu Kashmir, Jehadi, Vir Arjun, Women Demonstration in Kashmir,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!