تہاڑ جیل میں کیسے گذار رہے ہیں اپنا وقت یہ وی آئی پی قیدی


Published On 16th September 2011
انل نریندر
دہلی کی تہاڑ جیل کا نام وی آئی پی جیل کردینا چاہئے۔پچھلے کچھ دنوں سے یہاں ایک سے ایک بڑا نیتا مہمان بن رہا ہے۔ سلاخوں کے پیچھے امرسنگھ ، اے راجہ، کلماڑی، کنی موجھی جیسے اپنا دن کیسے گذارتے ہیں سنئے ۔ پہلے بات کرتے ہیں امر سنگھ کی۔ امرسنگھ کے لئے جیل کے قاعدے قانون اور روایات طاق پر رکھ دی گئیں۔ صحت کا حوالہ دیکر امرسنگھ کو پیر کی دیر شام آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ بھیج دیا گیا۔ قاعدے کے مطابق انہیں پہلے دین دیال اپادھیائے اسپتال بھیجا جانا چاہئے تھا۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب کسی قیدی کو علاج کے لئے براہ راست میڈیکل بھیجا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امر سنگھ کو جیل میں سہولت دینے کو لیکر بڑھتے سیاسی دباؤسے عاجز آکر جیل کے ڈائریکٹر جنرل چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ جیل کے ملازم بھی امر سنگھ کے نخروں سے پریشان ہوگئے تھے۔ڈی آئی جی جیل آر این شرما نے بتایا کہ تہاڑ میں کوئی وی آئی پی نہیں ہے۔ سبھی قیدیوں کو برابر حق اور سہولیات ہیں۔دراصل کلماڑی کے ساتھ اپنے دفتر میں چائے پلانے کے چلتے جیل سپرنٹنڈنٹ بھاردواج کوکالا پانی (پورٹ بلیئر) بھیج دیا گیا ہے۔ یہ سختی اسی کا اثر ہے۔ ایک وارڈن مسکراکر کہتا ہے کہ یہ وہی امر سنگھ ہے جنہیں کچھ دن پہلے تک امیتابھ بچن خود گاڑی چلا کر ہوائی اڈے سے اپنے گھر لاتے تھے۔ جنہوں نے اپنے گھر پر کروڑوں روپے کی سجا دھجا کرائی ہوئی تھی۔ وہی امر سنگھ آج 10X15 کے ایک سیل میں زمین پر سو رہے ہیں۔ جس میں ایک چھوٹا سا ٹی وی سیٹ اور پنکھا ہے۔ انہیں جیل سے چار کمبل، دو بیڈ شیٹ، ایک تھالی، کٹوری، چمچ، گلاس اور ایک مٹکا ملا ہوا ہے۔ بڑی پارٹیوں کے درمیان اربوں کھربوں کی سودے بازی کرنے والے امر سنگھ کی جیل میں 1500 روپے وہ بھی جیل کوپن کی شکل میں۔
صبح چھ بجے حاضری کے وقت ایک کے بعد ایک نام پکارے جاتے ہیں۔ امر سنگھ کا نام آتا ہے تو سنتری پکارتا ہے امرسنگھ جی، سریش کلماڑی، اے۔راجہ، کنی موجھی وغیرہ کئی بار خود بغیر نام کے پکارے رجسٹر پر صحیح نشان لگا دیتے ہیں۔ پھر پرارتھنا ’اے مالک تیرے بندے ہم‘ پچھلے 20 سال سے تہاڑ میں روزانہ صبح لتا منگیشکر کی آواز میں یہ پرارتھنا بجتی ہے۔ سبھی قیدی اسے دوہراتے ہیں۔ پھر چائے اخبار پھر کچھ دیر کے لئے ٹی وی ، پھر کچھ کا سیر کرنا، کچھ کا کام سانپ سیڑھی، لوڈو، کیرم اور شطرنج کھیلنا۔ پھر کھانا پینا اور سونا۔ راجہ کی اہلیہ پرمیشوری جمعرات کو ان سے ملنے پہنچیں لیکن کنی موجھی اتنی خوش قسمت نہیں تھیں ان سے ملنے کے لئے ایک تامل کوی نے ایک ممبر پارلیمنٹ کی معرفت عرضی دی تھی، جسے جیل حکام نے نامنظور کردیا۔ اسی طرح جیل نمبر 3 کے گیٹ پر سفید کرتا پائجامہ پہنے درجن بھر سے زیادہ لوگ جمع تھے۔ صبح11 بجے سے دیر شام تک کچھ ممبران اسمبلی اور دیگر خود کو بڑا نیتا بتا رہے تھے۔ ممبر پارلیمنٹ کلستے اور بھگورا سے ملنے مدھیہ پردیش اور راجستھان سے آئے تھے۔ جیل انتظامیہ نے انہیں منظوری نہیں دی تھی۔ جیل کے ترجمان سنیل گپتا بتاتے ہیں ساڑھے بارہ بجے قیدیوں میں صرف دو کے لئے گھر سے کھانا آتا ہے راجہ اور کنی موجھی۔ عدالت نے اس کی خاص اجازت دی ہوئی ہے۔ لیڈیز جیل میں کنی موجھی گھل مل گئی ہیں۔ خاتون سنتری انہیں دیدی کہہ کر بلاتی ہے۔ قاعدے کے مطابق ہفتے میں دو ملاقاتیں ہوسکتی ہیں وہ بھی گھر والوں سے۔ وہی کپڑے لیکر آتے ہیں ،ہفتے بھر کے لئے 1500 روپے دئیے جاتے ہیں۔ ان میں کینٹین سے کچھ پکوان مٹھائی خریدی جاسکتی ہے۔ راجہ ٹی وی چینل اور فلمیں دیکھ کر وقت گذار رہے ہیں۔ شاہد بلوا نے آئی پیڈ، کولر اور نرم تکیہ اور گدا بھی مانگا ہے۔ وہ ہندی فلمیں دیکھ کر وقت کاٹ رہے ہیں۔ ہاں جیل میں سیلون ، کپڑوں پر پریس، ڈرائی کلین اور سامان خریدنے کیلئے کینٹین کی سہولت ہے۔ کوپن کے ذریعے جو چاہے خریدلو۔ کلماڑی نے جھانسی کی رانی سیریل دیکھنے کے لئے ٹی وی مانگا تھا۔ سنتری کہتا ہے کلماڑی گھنٹوں رجسٹر میں کچھ لکھتے رہتے ہیں۔کیا لکھتے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ کیا وہ کس کس کو کیا دیا اس کا حساب کتاب لکھ رہے ہیں کیونکہ ان کی یاد داشت آتی جاتی رہتی ہے؟ زیادہ تر وی آئی پی دو مرکزی وزیر، ایک سابق وزیر اعلی، چھ سابق ممبر پارلیمنٹ، دو سابق اعلی افسر،پندرہ صنعت کار زیر سماعت قیدی ہیں۔ ان سے جیل کا کام نہیں کروایا جاتا۔ جس جیل میں رہتے ہیں اس کی صفائی ملازم کرتے ہیں۔ امر سنگھ کے ساتھ تین قیدی اس لئے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ پورا دن فنائل سے فرش صاف کرتے رہے ہیں تاکہ امر سنگھ کوکوئی انفیکشن نہ ہو۔ جیل کرمچاری بھی مانتے ہیں ایم پی تو آخر ایم پی ہے۔ باہر چاہے جتنی باتیں بنائی جائیں لیکن ایم پی کا لحاظ کرنا پڑتا ہے ۔تو اس طرح گذر رہی ہے ان وی آئی پی لوگوں کی تہاڑ جیل میں زندگی۔
A Raja, Amar Singh, Anil Narendra, Cash for Vote Scam, Daily Pratap, Kalmadi, kani Mozhi, Tihar Jail, Vir Arjun,

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!