ایک مسلم بچے کی ہندو خاندان نے کیسے پرورش کی

Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 14th August 2011
انل نریندر
کبھی بھی ایسی سچی کہانی سننے کو ملتی ہے کہ آدمی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ سچی کہانی الہ آباد اور لکھنؤ سے وابستہ ہے۔ تقریباًسات سال پہلے اکبر نام کا مسلم بچہ لاپتہ ہوگیا تھا۔ تین سال بعد ماں شہناز کو پتہ چلا کہ اس کا بیٹا لکھنؤ کے قیصر باغ میں ایکولال نامی شخص کے گھر پر ہے تو وہ اپنے شوہر کیساتھ وہاں پہنچی اور بیٹا واپس مانگنے لگی۔ لیکن بچے اکبر نے ماں کے ساتھ جانے سے صاف منع کردیا۔ اس کے بعد ایکولال نے بھی اسے بچہ نہیں دیا۔ اس پر شہناز لکھنؤ کوتوالی گئی لیکن پولیس نے رپورٹ اس لئے درج کرنے سے منع کردیا کہ بچے کے کھونے کے بعد ماں باپ نے کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی تھی۔ اس کے بعد شہناز نے ہائیکورٹ میں عرضی دائر کرائی جسے ہائیکورٹ نے یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ بچے کی مرضی کے خلاف وہ اسے نہیں رکھ سکتی۔ آخر کار یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ بدھ کے روز اس عجیب و غریب مقدمے کو سلجھانے کیلئے سپریم کورٹ نے قانون کے بجائے انسانی پہلو کو اپنایا۔عدالت نے شہناز کی مالی حالت کے بارے میں اس سے حلف نامہ مانگا۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ہم بچے کو اس کی ماں کے ساتھ جانے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں جس نے سات سال بہترین پرورش میں گذارے ہیں؟ بچے کے کھونے کے بعد اس کی ماں نے پولیس میں شکایت تک درج نہیں کرائی۔ عدالت نے بچے پر اس کا فیصلہ چھوڑدیا کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ سال2004 میں چھ سالہ اکبر کے والد محمد عباث الہ آباد میں اسے اپنے ساتھ سڑک کے کنارے شراب کی دکان پر لے گئے۔باپ شراب کے نشے میں دھت تھا اور اس نے غور نہیں کیا کہ اس کا بچہ وہیں چھوٹ گیا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بچے کے ماں باپ نے اس کے کھونے کی پولیس تک میں شکایت نہیں کی۔ اسی درمیان بچہ لکھنؤ کے قیصر باغ میں ایک چائے کی دکان پر پہنچ گیا۔ چائے اسٹال کا مالک ایکولال بچے کو اپنے گھر لے گیا۔جب بچے کو مانگنے کوئی نہیں آیا تو انہوں نے بچے کو اپنے پاس بیٹے کی طرح رکھ لیا۔ بچے کو بغیر نام اور مذہب بدلے اس کا اسکول میں داخلہ کروادیا۔ 2007 میں بچے کی حراست کیلئے اس کے اصلی ماں باپ الہ آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ ادھر ایکولال نے اسکول کی مارکس شیٹ اور دوسرے دستاویزات کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ بچے کی اچھے ڈھنگ سے پرورش کررہا ہے۔ بچے نے بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ جانے سے منع کردیا۔ 2007 میں جسٹس برکت علی زیدی نے فیصلہ سنایا کہ ہم ایک سیکولر دیش میں رہتے ہیں۔یہاں مقدمہ جیتنے کے لئے ذات اور فرقے کا سہارا نہیں لیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ میں بصداحترام ججوں نے بچے کی پرورش کرنے والے ایکو لال پر شہناز کے ذریعے اغوا کرنے کا الزام لگانے پر عدالت نے اس کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ جس خاندان نے بچے کا نام اور مذہب میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور اسے بیٹے کی طرح رکھا۔ اس پر یہ الزام مناسب نہیں ہے۔ بنچ نے شہناز سے پوچھا کہ وہ اس بچے کی ذمہ داری کیسے اٹھائے گی جبکہ اب وہ بیوہ ہے اور اس کے دو اور بیٹے ہیں جو اکبر سے چھوٹے ہیں۔ خون کا رنگ لال ہوتا ہے اور خون کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور انسانیت کے آگے نہ کوئی فرقہ اور نہ کوئی مذہب آڑے آتا ہے۔ ایکولال کا جذبہ لائق تحسین ہے اس نے ایک لاوارث بچے کی اس کے مذہب پر رہتے ہوئے پرورش کی جو انسانیت کے لئے ایک سبق ہے۔
Allahabad High Court, Anil Narendra, Daily Pratap, Hindu Muslim Unity, Religion, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!