یہ تحریک بھارت کے ہی نہیں ساری دنیا کے لئے مثال ہے!
Published On 20th August 2011
انل نریندر
کانگریس نے اناہزارے کی حمایت میں بڑی تعداد میں لوگوں کے آگے آنے پر سوال اٹھاتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ اس تحریک کے پیچھے امریکہ کاہاتھ ہے۔ کانگریس کی دلیل ہے کہ امریکہ نے کبھی کسی تحریک کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیاتھا مگر انا کی تحریک کو لے کر امریکہ کی وکالت شبہ پیدا کرتی ہے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی انا ہزارے کی گرفتاری کو لے کر پارلیمنٹ میں دئیے گئے اپنے بیان میں غیرملکی طاقتوں کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں جانتا اس تحریک کے پیچھے امریکہ کاہاتھ ہے یا نہیں۔ امریکہ جب بھی کسی ملک میں سرکارکچلنے والے قدموں پر جمہوری طریقہ سے جنتا تحریک کو ختم کرنے پر اتر آئے توامریکہ اس پر وارننگ دینے کی تجویز ضرور رکھتا ہے۔
اس نے چین، وسطی دیشوں کو بھی ایسی وارننگ دی ہے اور دیتا رہا ہے۔ یہ کہناہے کہ اس لئے بھی غلط لگتا ہے کہ جتنی امریکہ پرست یہ منموہن سرکار ہے اتنی تو آزاد بھارت کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوگا۔ ساری کانگریس لیڈر شپ امریکی ہمدرد ہے اور یہ بات کئی بار ثابت ہوچکی ہے۔ وہ اس لئے کہنا سمجھ سے باہر نہیں اگر کانگریس یہ کہتی ہے کہ کچھ طاقتیں دیش کی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے اس لئے اندرونی حالت کمزور کررہی ہے۔ تو بھی بات سمجھ میں آتی ہے۔اناکی تحریک نے نہ صرف سارے پرانے ریکارڈ توڑدیئے ہیں ٹیم انا نے کمال کردیا ہے۔ جس طریقہ سے پچھلے چار دنوں سے جنتا سڑکوں پر پرامن طریقہ سے تحریک چلارہی ہے۔ وہ ناقابل بیان ہے۔ اتنی تعداد میں لوگ سڑکوں پر ہو اور ایک بھی جگہ لاٹھی چارج نہ ہو ایک بھی جگہ قومی املاک کونقصان نہ پہنچا ہو۔ یہ بھارت میں کیا ساری دنیا میں ایک مثال ہے۔ لوگوں کو جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے بس ایک آواز انڈیا گیٹ پر ایک لاکھ لوگ۔ نہ کوئی سیاسی نیتا اورنہ کوئی ریلی۔ اس طرح اکٹھے لوگوں کودہلی کیا دنیا نے بھی کم دیکھا ہوگا۔ بدعنوانی کے خلاف دہلی اور پورے دیش میں تنی مٹھیاں یہ بتارہی ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف اب بات بہت دور تک جائے گی۔ پارلیمنٹ سے جڑے راج پتھ پر مٹھی باندھے ، مشعل لئے اور موم بتیاں جلائے ہزاروں لوگ ٹھیک اس وقت داخل ہو کر عوامی طاقت دکھارہے تھے جب لوک سبھا میں بدعنوانی روکنے کی سیاست پر بحث چل رہی تھی۔ اور راجیہ سبھا بدعنوانی کے ملزم ایک جج کیخلاف تحریک ملامت پر بحث کررہی تھی۔ دہلی میں ہی کیوں بدھ کے روز پورے دیش میں لوگ اکٹھے ہوگئے۔ ممبئی آزاد میدان سے لے کر سودور لداخ تک اورچنئی سے گوہاٹی تک ایک وسیع تحریک تیزی اختیار کرتی دکھائی دی۔ تہاڑ سے انا نے خاص کر یہ پیغام بھیجوایا کہ حمایتی افراد عدم تشدد کے راستے کو اپنائے چونکہ حکومت کے کچھ لوگ مظاہرین کو اکسا نے کے لئے کچھ افواہوں کا سہارا لے سکتے ہیں۔ اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
کون کہتا ہے دیش کی نوجوان پیڑھی حب الوطن نہیں؟ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ ہماری نوجوان پیڑھی نہ تو 15اگست یا 26جنوری کوئی اہمیت رکھتی ہے۔ اور وہ دیش کی سیاست سے بے خبر ہے۔ دیش میں کیا ہورہا ہے۔ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور نہ ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن پچھلے تین دنوں میں یہ خیال پوری طرح غلط ثابت ہوگیا ہے کہ پورے دیش میں اناکی حمایت میں دیش کی نوجوان پیڑھی سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ جن لوکپال بل کی حمایت میں اور تہاڑ جیل میں بند انا ہزارے کی رہائی کے مطالبہ کو لے کر دہلی کے کونے کونے سے اسکولی بچے تہاڑ جیل پہنچے خاص بات یہ رہی ہے کہ یہ طالب علم اپنے اسکولوں سے آدھے دن کی چھٹی لے کر یہاں پہنچے تھے۔ کچھ بچوں نے تو یہاں پہنچنے کے لئے باقاعدہ اسکول سے ایک دن پہلے ہی چھٹی لے لی تھی۔ دہلی یونیورسٹی نے طلبہ پر اناکی حمایت کرنے پر پابندی لگادی تھی لیکن طالب علموں نے اس کی پرواہ نہیں کی اور کروڑی مل، میرانڈہ ہاؤس ،بھیم راؤ امبیڈکر،جیسے کالجوں کے طلبہ نے کلاس روم سے ہی باہر سڑک پر آکر مظاہرہ کیا اور ریلیاں نکالیں۔
چھتر سال اسٹیڈیم پہنچی طالبات نے بتایا میرانڈہ ہاؤس میں ٹیچر توآئے ہیں لیکن کلاسیں خالی ہیں۔ سینٹ اسٹفین کالج ایلومنی ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی بہت ساری پرانی طالب علم اناکی حمایت میں آگے آئے۔ جب یہ تہتر سالہ ایک بزرگ جیل جانے کے بعد بھی اپنا انشن نہ توڑے اور بدعنوانی کے خلاف اپنی مہم جاری رکھے تو بھلا ہم طالب علم کیسے ساتھ نہ دیں؟ ان کا پختہ ارادہ دیکھ کر ہماری آتما بھی خوش ہوجاتی ہے۔ یہ تھا طلبہ کاجذبہ۔ لوگوں کاجذبہ ا یسا نا قابل بیان تھاکہ تہاڑ جیل کے باہر اور چھترسال اسٹیڈیم میں جنتا وہاں بیٹھے مظاہرین کے لئے گھروں سے کھانے کا پیکٹ اورپانی بانٹ رہے تھے۔ ایسے مناظر اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے تھے۔ اور اپنی مرضی سے بغیر کسی لیڈر بغیرپارٹی بغیرپیسے جنتا یوں سڑکوں پر اترآئے یہ ساری دنیا کے لئے ایک مثال ہے آپ کہیں بھی چلے جائیں سب جگہ یہ تحریک ایک بحث کا اشوانا ہزارے تھا۔ انا کی کرانتی بسوں سے لے کر چائے کی دکانوں تک پھیل گئی ہے۔ اناکی آندھی سڑکوں کے ساتھ بسوں میں بھی سوار ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نوجوان ، بزرگ، خواتین ہرعمر کے لوگ اس آندھی میں شامل ہے۔
صبح پارکوں میں گھومنے والے بزرگوں کی ٹولی بھی انا کے بہانے دیش میں کینسر کی طرح پھیل رہی بدعنوانی کے مسئلے پر تبادلہ خیالات کرتے نظر آئے۔ انا کی حمایت میں بدھوار کو وکیلوں نے بھی سڑکوں پر مظاہرہ کیا۔ اور سبھی عدالتوں میں ہڑتال رہی۔انا کی آندھی نے لوگوں کو محبت، خدمت،اور ڈسپلن کی ڈورمیں باندھ دیا ہے۔تہاڑجیل کے باہر منگلوارکی شام سے جمع اناحمایتیوں کے لئے مقامی لوگ چائے پانی اورناشتہ لے کر پہنچے تھے رات بھر کے تھکے حمایتیوں کے لئے چادر دری لے کر لوگ دوڑے چلے آئے۔ حمایتوں کی بھیڑ کی وجہ سے سڑک پر آنے جانے والے لوگوں کو کوئی پریشانی نہ ہو اس کے لئے انہوں نے خود ہی ٹریفک سسٹم کی کمان سنبھال لی تھی۔ تہاڑ جیل کے مختلف دروازوں کے باہر انا کے حمایتیوں کی وجہ سے جیل میں راشن کی جب قلت پڑی تو توکرن بیدی نے جیل کے گیٹ نمبر 4 پر بیٹھے انا حمایتیوں سے گیٹ خالی کرنے کی اپیل کی۔ جس کی وجہ سے راستہ ملنے پرراشن لانے کاانتظام ہوسکا۔ انا کی حمایت کررہے مظاہرین کی طبیعت کی دیکھ بھال کیلئے باقاعدہ ڈاکٹروں نے ایک ٹیم بنالی۔ جس سے ضرورت مند لوگوں کو سنبھالا جاسکے۔
دلچسپ بات تو یہ بھی تھی کہ بیرونی ملک میں اس تحریک میں ساتھ آئی فرانس کی ایک خاتون چارلوٹی کہتی ہیں تحریک ،کرپشن کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار ہے فرانسیسی اخبار میں کام کرنے والی دوسری خاتون جیسکا کاکہناہے کہ میں اس تحریک کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی لیکن لوگوں کواپنے دیش کے لئے اس قدر آواز اٹھاتے دیکھ کر اچھا لگا۔دو لوگ تو الہ آباد سے سائیکل پردہلی آئے۔ تاکہ وہ انا کی حمایت کرسکے۔ ایساعوامی جذبہ برسوں کے بعد نظرآیا۔ قومی ترنگا کے احترام کے لئے پورا دیش متحد ہوگیا۔ اس نوجوان پیڑھی نے دکھا دیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ کسی سے پیچھے نہیں۔ اتنے دن سے تحریک جاری ہے، ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہیں نہ توکسی قومی املاک کو نقصان پہنچا نہ ہی کوئی بس جلائی گئی اورنہ ہی آنسو گیس چھوڑی گئی۔ اور نہ لاٹھی چارج ہوا اورنہ ہی گرفتاری ہوئی۔ لیکن ہمیں خبردار رہنا ہوگا کہ اناکی ٹیم نے بڑے اچھے ڈھنگ سے اب تک تحریک کوچلایا لیکن کچھ عناصر اسے تشدد میں بدلنے کی کوشش کرسکتے ہیں وہ طرح طرح کی افواہیں پھیلاسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ ایک بھی چنگاری کافی ہوگی۔ دنیا کواناہزارے نے دکھادیا ہے کہ عدم تشددکاراستہ کا کتنا اثر آج بھی ہے۔
اس نے چین، وسطی دیشوں کو بھی ایسی وارننگ دی ہے اور دیتا رہا ہے۔ یہ کہناہے کہ اس لئے بھی غلط لگتا ہے کہ جتنی امریکہ پرست یہ منموہن سرکار ہے اتنی تو آزاد بھارت کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوگا۔ ساری کانگریس لیڈر شپ امریکی ہمدرد ہے اور یہ بات کئی بار ثابت ہوچکی ہے۔ وہ اس لئے کہنا سمجھ سے باہر نہیں اگر کانگریس یہ کہتی ہے کہ کچھ طاقتیں دیش کی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے اس لئے اندرونی حالت کمزور کررہی ہے۔ تو بھی بات سمجھ میں آتی ہے۔اناکی تحریک نے نہ صرف سارے پرانے ریکارڈ توڑدیئے ہیں ٹیم انا نے کمال کردیا ہے۔ جس طریقہ سے پچھلے چار دنوں سے جنتا سڑکوں پر پرامن طریقہ سے تحریک چلارہی ہے۔ وہ ناقابل بیان ہے۔ اتنی تعداد میں لوگ سڑکوں پر ہو اور ایک بھی جگہ لاٹھی چارج نہ ہو ایک بھی جگہ قومی املاک کونقصان نہ پہنچا ہو۔ یہ بھارت میں کیا ساری دنیا میں ایک مثال ہے۔ لوگوں کو جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے بس ایک آواز انڈیا گیٹ پر ایک لاکھ لوگ۔ نہ کوئی سیاسی نیتا اورنہ کوئی ریلی۔ اس طرح اکٹھے لوگوں کودہلی کیا دنیا نے بھی کم دیکھا ہوگا۔ بدعنوانی کے خلاف دہلی اور پورے دیش میں تنی مٹھیاں یہ بتارہی ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف اب بات بہت دور تک جائے گی۔ پارلیمنٹ سے جڑے راج پتھ پر مٹھی باندھے ، مشعل لئے اور موم بتیاں جلائے ہزاروں لوگ ٹھیک اس وقت داخل ہو کر عوامی طاقت دکھارہے تھے جب لوک سبھا میں بدعنوانی روکنے کی سیاست پر بحث چل رہی تھی۔ اور راجیہ سبھا بدعنوانی کے ملزم ایک جج کیخلاف تحریک ملامت پر بحث کررہی تھی۔ دہلی میں ہی کیوں بدھ کے روز پورے دیش میں لوگ اکٹھے ہوگئے۔ ممبئی آزاد میدان سے لے کر سودور لداخ تک اورچنئی سے گوہاٹی تک ایک وسیع تحریک تیزی اختیار کرتی دکھائی دی۔ تہاڑ سے انا نے خاص کر یہ پیغام بھیجوایا کہ حمایتی افراد عدم تشدد کے راستے کو اپنائے چونکہ حکومت کے کچھ لوگ مظاہرین کو اکسا نے کے لئے کچھ افواہوں کا سہارا لے سکتے ہیں۔ اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
کون کہتا ہے دیش کی نوجوان پیڑھی حب الوطن نہیں؟ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ ہماری نوجوان پیڑھی نہ تو 15اگست یا 26جنوری کوئی اہمیت رکھتی ہے۔ اور وہ دیش کی سیاست سے بے خبر ہے۔ دیش میں کیا ہورہا ہے۔ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور نہ ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن پچھلے تین دنوں میں یہ خیال پوری طرح غلط ثابت ہوگیا ہے کہ پورے دیش میں اناکی حمایت میں دیش کی نوجوان پیڑھی سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ جن لوکپال بل کی حمایت میں اور تہاڑ جیل میں بند انا ہزارے کی رہائی کے مطالبہ کو لے کر دہلی کے کونے کونے سے اسکولی بچے تہاڑ جیل پہنچے خاص بات یہ رہی ہے کہ یہ طالب علم اپنے اسکولوں سے آدھے دن کی چھٹی لے کر یہاں پہنچے تھے۔ کچھ بچوں نے تو یہاں پہنچنے کے لئے باقاعدہ اسکول سے ایک دن پہلے ہی چھٹی لے لی تھی۔ دہلی یونیورسٹی نے طلبہ پر اناکی حمایت کرنے پر پابندی لگادی تھی لیکن طالب علموں نے اس کی پرواہ نہیں کی اور کروڑی مل، میرانڈہ ہاؤس ،بھیم راؤ امبیڈکر،جیسے کالجوں کے طلبہ نے کلاس روم سے ہی باہر سڑک پر آکر مظاہرہ کیا اور ریلیاں نکالیں۔
چھتر سال اسٹیڈیم پہنچی طالبات نے بتایا میرانڈہ ہاؤس میں ٹیچر توآئے ہیں لیکن کلاسیں خالی ہیں۔ سینٹ اسٹفین کالج ایلومنی ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی بہت ساری پرانی طالب علم اناکی حمایت میں آگے آئے۔ جب یہ تہتر سالہ ایک بزرگ جیل جانے کے بعد بھی اپنا انشن نہ توڑے اور بدعنوانی کے خلاف اپنی مہم جاری رکھے تو بھلا ہم طالب علم کیسے ساتھ نہ دیں؟ ان کا پختہ ارادہ دیکھ کر ہماری آتما بھی خوش ہوجاتی ہے۔ یہ تھا طلبہ کاجذبہ۔ لوگوں کاجذبہ ا یسا نا قابل بیان تھاکہ تہاڑ جیل کے باہر اور چھترسال اسٹیڈیم میں جنتا وہاں بیٹھے مظاہرین کے لئے گھروں سے کھانے کا پیکٹ اورپانی بانٹ رہے تھے۔ ایسے مناظر اس سے پہلے کبھی نہ دیکھے گئے تھے۔ اور اپنی مرضی سے بغیر کسی لیڈر بغیرپارٹی بغیرپیسے جنتا یوں سڑکوں پر اترآئے یہ ساری دنیا کے لئے ایک مثال ہے آپ کہیں بھی چلے جائیں سب جگہ یہ تحریک ایک بحث کا اشوانا ہزارے تھا۔ انا کی کرانتی بسوں سے لے کر چائے کی دکانوں تک پھیل گئی ہے۔ اناکی آندھی سڑکوں کے ساتھ بسوں میں بھی سوار ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نوجوان ، بزرگ، خواتین ہرعمر کے لوگ اس آندھی میں شامل ہے۔
صبح پارکوں میں گھومنے والے بزرگوں کی ٹولی بھی انا کے بہانے دیش میں کینسر کی طرح پھیل رہی بدعنوانی کے مسئلے پر تبادلہ خیالات کرتے نظر آئے۔ انا کی حمایت میں بدھوار کو وکیلوں نے بھی سڑکوں پر مظاہرہ کیا۔ اور سبھی عدالتوں میں ہڑتال رہی۔انا کی آندھی نے لوگوں کو محبت، خدمت،اور ڈسپلن کی ڈورمیں باندھ دیا ہے۔تہاڑجیل کے باہر منگلوارکی شام سے جمع اناحمایتیوں کے لئے مقامی لوگ چائے پانی اورناشتہ لے کر پہنچے تھے رات بھر کے تھکے حمایتیوں کے لئے چادر دری لے کر لوگ دوڑے چلے آئے۔ حمایتوں کی بھیڑ کی وجہ سے سڑک پر آنے جانے والے لوگوں کو کوئی پریشانی نہ ہو اس کے لئے انہوں نے خود ہی ٹریفک سسٹم کی کمان سنبھال لی تھی۔ تہاڑ جیل کے مختلف دروازوں کے باہر انا کے حمایتیوں کی وجہ سے جیل میں راشن کی جب قلت پڑی تو توکرن بیدی نے جیل کے گیٹ نمبر 4 پر بیٹھے انا حمایتیوں سے گیٹ خالی کرنے کی اپیل کی۔ جس کی وجہ سے راستہ ملنے پرراشن لانے کاانتظام ہوسکا۔ انا کی حمایت کررہے مظاہرین کی طبیعت کی دیکھ بھال کیلئے باقاعدہ ڈاکٹروں نے ایک ٹیم بنالی۔ جس سے ضرورت مند لوگوں کو سنبھالا جاسکے۔
دلچسپ بات تو یہ بھی تھی کہ بیرونی ملک میں اس تحریک میں ساتھ آئی فرانس کی ایک خاتون چارلوٹی کہتی ہیں تحریک ،کرپشن کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار ہے فرانسیسی اخبار میں کام کرنے والی دوسری خاتون جیسکا کاکہناہے کہ میں اس تحریک کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی لیکن لوگوں کواپنے دیش کے لئے اس قدر آواز اٹھاتے دیکھ کر اچھا لگا۔دو لوگ تو الہ آباد سے سائیکل پردہلی آئے۔ تاکہ وہ انا کی حمایت کرسکے۔ ایساعوامی جذبہ برسوں کے بعد نظرآیا۔ قومی ترنگا کے احترام کے لئے پورا دیش متحد ہوگیا۔ اس نوجوان پیڑھی نے دکھا دیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ کسی سے پیچھے نہیں۔ اتنے دن سے تحریک جاری ہے، ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہیں نہ توکسی قومی املاک کو نقصان پہنچا نہ ہی کوئی بس جلائی گئی اورنہ ہی آنسو گیس چھوڑی گئی۔ اور نہ لاٹھی چارج ہوا اورنہ ہی گرفتاری ہوئی۔ لیکن ہمیں خبردار رہنا ہوگا کہ اناکی ٹیم نے بڑے اچھے ڈھنگ سے اب تک تحریک کوچلایا لیکن کچھ عناصر اسے تشدد میں بدلنے کی کوشش کرسکتے ہیں وہ طرح طرح کی افواہیں پھیلاسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ ایک بھی چنگاری کافی ہوگی۔ دنیا کواناہزارے نے دکھادیا ہے کہ عدم تشددکاراستہ کا کتنا اثر آج بھی ہے۔
America, Anil Narendra, Anna Hazare, Arvind Kejriwal, Congress, Corruption, Daily Pratap, Kiran Bedi, Lokpal Bill, Manmohan Singh, Tihar Jail, USA, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں