’نوٹ کے بدلے ووٹ‘ معاملے پر امرسنگھ سے لمبی پوچھ تاچھ
نوٹ کے بدلے ووٹ معاملے میں دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے جمعہ کے روز راجیہ سبھا ایم پی امرسنگھ سے تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی ہے۔ اس معاملے میں پہلے ہی سے گرفتار دو ملزمان سنجیو سکسینہ اور سہیل ہندوستانی سے بھی آمنا سامنا کرایا گیا۔اس تین گھنٹے کی پوچھ تاچھ پر باقاعدہ طور سے دہلی پولیس کی ذریعے کوئی بریفنگ ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔ اسلئے اس دوران کیا سوال جواب ہوئے ان کے بارے میں دعوے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اخبارات میں جو رپورٹیں شائع ہوئی ہیں ان سے تھوڑا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سوالوں کی لائن کیا رہی ہوگی۔ امر سنگھ جمعہ کی صبح ہی 10.45 بجے اپنی مرسڈیز کار میں چانکیہ پوری میں واقع کرائم برانچ کے انٹرسٹیٹ سیل میں پہنچ گئے۔ اور دوپہر تقریباً 12.50 منٹ تک کرائم برانچ کے پولیس افسران امر سنگھ سے پوچھ تاچھ کرتے رہے۔ پھر اسپیشل سیل کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ایل ۔ این راؤ بھی پہنچ گئے۔ راؤ ماضی میں بھی ٹیپنگ معاملے میں امر سنگھ سے پوچھ تاچھ کرچکے ہیں۔ دوپہر دو بجے پوچھ تاچھ ختم ہونے کے بعد وہ میڈیا ملازمین کے سوالوں کا جواب دئے بغیر نکل گئے۔ پولیس کے ذرائع نے بتایا پوچھ تاچھ کے دوران امر سنگھ کا برتاؤ ٹھیک رہا اور وہ خود اعتمادی سے بھرے ہوئے ہے۔افسران نے پوچھ تاچھ کے دوران تقریباً ڈیڑھ بجے سہیل ہندوستان اور امر سنگھ کا آمنا سامنا بھی کرایا۔ امر سنگھ نے سہیل کے ایک کروڑ روپیہ دینے کے الزامات سمیت سبھی الزامات کو مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا سنجیو سکسینہ میرا پرائیویٹ سکریٹری رہ چکا ہے لیکن جب یہ کانڈ ہوا تب وہ ایک بسپا نیتا کا پرائیویٹ سکریٹری تھا۔ ایک شائع رپورٹ کے مطابق امر سنگھ نے سبھی سوالوں کا گول مول انداز میں جواب دیا۔ دہلی پولیس کرائم برانچ نے امر سنگھ کے لئے 15 سوالوں کی فہرست تیار کررکھی تھی۔ پہلا سوال تھا کہ22 جولائی 2008 کو پارلیمنٹ میں لائے گئے ایک کروڑ روپے کے سلسلے میں ایک خاص ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی۔ اس نمبر والے شخص کے بارے میں وہ کتنا جانتے ہیں۔ دوسرا سوال ،کچھ کھاتوں کے بارے میں ان سے پوچھا جن سے ’چیک فار ووٹ ‘ کے لئے ایک کروڑ روپے نکالے گئے تھے۔ تیسرا سوال تھا 22 جولائی کوایم پی اشوک ارگل، مہاویر سنگھ بھگوٹا،چھگن سنگھ کلہتے ان کی رہائش گاہ پر آئے تھے یا نہیں؟ چوتھا سوال کہ امر سنگھ نے اپنے پی اے سنجیو سکسینہ کی ملاقات ان تینوں سے کروائی تھی یا نہیں۔ ذرائع کے مطابق امر سنگھ کا ڈرائیور سنجے ان معاملوں میں اہم کڑی ہے جو واردات کے بعد سے ہی غائب ہے۔پانچواں سوال ،کیا امر سنگھ نے 22 جولائی کی صبح سنجے کو سنجیو کے ساتھ فیروز شاہ روڈ بھیجا تھا؟ اگلا سوال ،رشوت کے ایک کروڑ روپے بیگ میں ان کے گھر پرپائے گئے تھے؟ ذرائع نے بتایا سوال نمبر8 کے وہ ایک کروڑ روپے کس کے تھے؟ امر سنگھ نے اس کی جانکاری سے انکار کردیا تو اگلا سوال سنجیو کی پوچھ تاچھ میں آئے اور حقائق پر کیا گیا۔ پولیس نے پوچھا کہ سنجیو نے کہا ہے کہ امر سنگھ کا ڈرائیور اسے لیکر گیا تھا۔ تو آپ کو (امر سنگھ) اس کی جانکاری کیسے نہیں ہے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ابھی تک پوری طرح لڑکھڑا چکے امر سنگھ سے ہلکا سوال کرتے ہوئے پولیس نے پوچھا کہ وہ سنجیو سکسینہ کو کب سے جانتے ہیں اور اسے واقع سے متعلق کیا کام سونپ رکھا تھا؟ تیرہواں سوال پھر سخت تھا۔ پہلے سوال میں پوچھے گئے فون نمبر پر واپس لوٹتے ہوئے پولیس نے سوال داغا کہ19 اور 21 جولائی 2008 کے دوران اس نمبر پر ان کی کتنی بات ہوئی، اور کس سے ہوئی کیوں اور کیا ہوئی؟ کال تفصیلات کے مطابق امر سنگھ نے اس نمبر پر اس درمیان کئی مرتبہ بات چیت کی۔ پندرواں اور آخری سوال تھا کہ کلستے نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ امر سنگھ نے سنجیو کو ممبران پارلیمنٹ سے ملوایا تھا۔ اس میں کتنی سچائی ہے؟
ادھر شری امر سنگھ سے چانکیہ پوری سیل میں پوچھ تاچھ ہورہی تھی ادھر بہت سے لیڈروں کی سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔ انہیں یہ ڈر ستا رہا تھا کہ پتہ نہیں امر سنگھ کیا کہہ دیں؟ امر سنگھ استادوں کے استاد ہیں۔ وہ اپنے جو بچانے کیلئے انگلی کسی بھی طرف گھما سکتے ہیں۔ خاص کر کانگریسی لیڈروں میں کافی ہلچل رہی۔ پوچھ تاچھ کے بعد کانگریسی نیتا سنجیدہ نظر آئے۔ کل تک کانگریس کے سینئر لیڈر کہہ رہے تھے کہ سہیل ہندوستانی کے بیان پر کانگریس اور امر سنگھ جیسی شخصیت سے پوچھ تاچھ ٹھیک نہیں ہے۔ سہیل بھاجپا کے پٹھو اور دلال ہے۔ پولیس کی پوچھ تاچھ کے بعد ہی پارٹی نیتا احمد پٹیل کو کلین چٹ دے دی ہے۔ سوال کیا جارہا ہے کہ پوچھ تاچھ سے پہلے ہی پولیس نے کسی کو بھی کلین چٹ کس بنا پر دے دی؟ کانگریس کے ترجمان اشوک منو سنگھوی نے کہا کہ اس معاملے میں قانون اپنا کام کررہا ہے کیونکہ معاملہ کورٹ کے سامنے ہے اس لئے پارٹی کی طرف سے رد عمل دینا مناسب نہیں ہے۔ایک دوسرے کانگریسی سینئر لیڈر نے کہا کیا دہلی کو ایک کورٹ نے نوٹ کے بدلے ووٹ میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے کردار کو بھی مسترد کردیا ہے اس لئے پولیس بہت جلد سچائی تک پہنچ جائے گی۔ یہ پورا کھیل بھاجپا کی طرف سے اسپانسر تھا جس سے کانگریس اور سرکار بدنام ہو۔ دوسری طرف بھاجپا نے دہلی پولیس کے ذریعے عدالت کو یہ بتائے جانے پر کہ معاملے میں کانگریس یا سپا کے کسی نیتا کے شامل ہونے کی بات جانچ میں سامنے نہیں آئی لیکن کہاپولیس کا بیان بے ایمانی کو چھپانے والا اور جانچ کے نام پر دھبہ ہے۔ بھاجپا کے ترجمان پرکاش جاویڈکر نے پولیس جانچ پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ جب جانچ پوری نہیں ہوئی، معاملے کے متعلق لوگوں کے بیان نہیں ہوئے تو پھر پولیس اس نتیجے پر کیسے پہنچ سکتی ہے کہ پورے معاملے میں فائدہ پانے والی کانگریس یا اس پورے کانڈ کو انجام دینے والی سپا کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔بھاجپا ترجمان نے کہا کہ اگر جانچ اسی طرح ہونی ہے تو جانچ ایک چھلاوا ہے اور پولیس اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر پورے معاملے میں لیپا پوتی کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جاویڈکر نے کہا کہ پولیس کی جانچ میں تیزی ویسے ہی سپریم کورٹ کے دباؤ کے بعد آئی ہے لیکن لگتا ہے کہ پولیس پوری طرح سے سیاسی دباؤ میں کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پولیس معاملے میں ایمانداری اور قاعدے سے جانچ کرے تو 15 دن کے اندر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ویسے بھی معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت کو دہلی پولیس کو کنوینس کرنا ہوگا کہ وہ اگر اس نتیجہ پر پہنچی ہے تو کس بنا پر پہنچی ہے؟ پھر عدالت کے موقف پر منحصر کرے گا کہ کیس کس سمت میں چلنا ہے۔ ابھی سے کچھ بھی دعوے سے کہنا شاید غلط ہوگا۔
ادھر شری امر سنگھ سے چانکیہ پوری سیل میں پوچھ تاچھ ہورہی تھی ادھر بہت سے لیڈروں کی سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔ انہیں یہ ڈر ستا رہا تھا کہ پتہ نہیں امر سنگھ کیا کہہ دیں؟ امر سنگھ استادوں کے استاد ہیں۔ وہ اپنے جو بچانے کیلئے انگلی کسی بھی طرف گھما سکتے ہیں۔ خاص کر کانگریسی لیڈروں میں کافی ہلچل رہی۔ پوچھ تاچھ کے بعد کانگریسی نیتا سنجیدہ نظر آئے۔ کل تک کانگریس کے سینئر لیڈر کہہ رہے تھے کہ سہیل ہندوستانی کے بیان پر کانگریس اور امر سنگھ جیسی شخصیت سے پوچھ تاچھ ٹھیک نہیں ہے۔ سہیل بھاجپا کے پٹھو اور دلال ہے۔ پولیس کی پوچھ تاچھ کے بعد ہی پارٹی نیتا احمد پٹیل کو کلین چٹ دے دی ہے۔ سوال کیا جارہا ہے کہ پوچھ تاچھ سے پہلے ہی پولیس نے کسی کو بھی کلین چٹ کس بنا پر دے دی؟ کانگریس کے ترجمان اشوک منو سنگھوی نے کہا کہ اس معاملے میں قانون اپنا کام کررہا ہے کیونکہ معاملہ کورٹ کے سامنے ہے اس لئے پارٹی کی طرف سے رد عمل دینا مناسب نہیں ہے۔ایک دوسرے کانگریسی سینئر لیڈر نے کہا کیا دہلی کو ایک کورٹ نے نوٹ کے بدلے ووٹ میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے کردار کو بھی مسترد کردیا ہے اس لئے پولیس بہت جلد سچائی تک پہنچ جائے گی۔ یہ پورا کھیل بھاجپا کی طرف سے اسپانسر تھا جس سے کانگریس اور سرکار بدنام ہو۔ دوسری طرف بھاجپا نے دہلی پولیس کے ذریعے عدالت کو یہ بتائے جانے پر کہ معاملے میں کانگریس یا سپا کے کسی نیتا کے شامل ہونے کی بات جانچ میں سامنے نہیں آئی لیکن کہاپولیس کا بیان بے ایمانی کو چھپانے والا اور جانچ کے نام پر دھبہ ہے۔ بھاجپا کے ترجمان پرکاش جاویڈکر نے پولیس جانچ پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ جب جانچ پوری نہیں ہوئی، معاملے کے متعلق لوگوں کے بیان نہیں ہوئے تو پھر پولیس اس نتیجے پر کیسے پہنچ سکتی ہے کہ پورے معاملے میں فائدہ پانے والی کانگریس یا اس پورے کانڈ کو انجام دینے والی سپا کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔بھاجپا ترجمان نے کہا کہ اگر جانچ اسی طرح ہونی ہے تو جانچ ایک چھلاوا ہے اور پولیس اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر پورے معاملے میں لیپا پوتی کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جاویڈکر نے کہا کہ پولیس کی جانچ میں تیزی ویسے ہی سپریم کورٹ کے دباؤ کے بعد آئی ہے لیکن لگتا ہے کہ پولیس پوری طرح سے سیاسی دباؤ میں کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پولیس معاملے میں ایمانداری اور قاعدے سے جانچ کرے تو 15 دن کے اندر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ویسے بھی معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت کو دہلی پولیس کو کنوینس کرنا ہوگا کہ وہ اگر اس نتیجہ پر پہنچی ہے تو کس بنا پر پہنچی ہے؟ پھر عدالت کے موقف پر منحصر کرے گا کہ کیس کس سمت میں چلنا ہے۔ ابھی سے کچھ بھی دعوے سے کہنا شاید غلط ہوگا۔
Tags: Ahmed Patel, Amar Singh, Anil Narendra, BJP, Cash for Vote Scam, Congress, Daily Pratap, delhi Police, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں