مہاراشٹر میں گٹھ بندھنوں کا طلاق!سبھی خوش ہیں

وینٹی لیٹر پر چل رہے بھاجپا۔ شیوسینا گٹھ بندھن آخر کار اپنی آخری سانس لے لی ہے۔ بھاجپا نے اپنے سب سے پرانے سہیوگی شیوسینا سے 25 سال پرانا ناطہ توڑ لیا ہے ادھر کانگریس اور این سی پی کا 15 سال پرانا رشتہ بھی ٹوٹ گیا ہے۔ مہاراشٹر میں ودھان سبھا چناؤسے تین ہفتے پہلے دونوں گٹھ بندھنوں کا ٹوٹنے کا مطلب ہے کہ اب بھاجپا شیوسینا ، کانگریس اور این سی پی یہاں اب الگ الگ لڑیں گی۔ بھاجپا شیوسیناگٹھ بندھن ٹوٹنے کے اشارے تبھی مل گئے تھے۔ جب بھاجپا کے قومی صدر امیت شاہ نے اپنا پہلا ممبئی کادورہ کیا تھا بھاجپا گٹھ بندھن کے ٹوٹنے کااعلان پردھان منتری کے امریکہ روانہ ہونے سے پہلے نہیں ہوناچاہئے تھا۔ تاکہ مودی پر ٹوٹنے کاالزام نہ لگے۔ جیسے ہی مودی طیارے پر امریکہ کے لئے بیٹھے ویسے ہی بھاجپا نے گٹھ بندھن ٹوٹنے کا اعلان کردیا۔ بھاجپا کے ذرائع کے مطابق بھاجپا نے شیوسینا کے ساتھ اپنا پچیس سال کا گٹھ بندھن ٹوٹنے کا اعلان آنا فانا میں نہیں کیا بلکہ پوری تیاری کے بعد توڑا ہے پارٹی کے ذرائع کے مطابق بھاجپا نے شیوسینا سے پیچھا چھڑانے سے پہلے چناؤکے بعد این سی پی اور مہاراشٹر نونرمان سینا( راج ٹھاکرے) سے سمرتھن کاپختہ ا رادہ کرلیا ہے۔ گزشتہ ایک پکھواڑے سے جاری رسہ کشی کے دوران بھاجپا چناؤ کے بعد ضرورت پڑنے پر این سی پی اور مہاراشٹر نونرمان سینا سے سمرتھن کے امکانات پر غور کررہی ہے۔ دونوں ہی طرف سے کامیاب پیغام ملنے کے بعد ہی شیوسینا بھاجپا کے سمبندھنوں کی الٹی گنتی شروع ہوگئی این سی پی نے بھی کانگریس سے دامن چھڑا کر اکیلے چناؤ میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بہرحال اب ہریانہ اور مہاراشٹر ودھان سبھا چناؤ کے پہلے اپنی اپنی فہرست جاری کرنے میں اور اپنے دم خم پرچناؤ لڑنے کے لئے میدان میں ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی مہاراشٹر میں ہریانہ کی طرح ہی پردھان منتری نریندر مودی ہی پارٹی کاچہرہ ہوں گے۔ ویسے اپناماننا ہے کہ ہریانہ کے بعد مہاراشٹر میں اپنے سب سے پرانے وچاروالی پارٹی شیوسینا سے گٹھ بندھن توڑ کر بڑا جوکھم اٹھایا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھاجپا اپنے سیہوگی دلوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتی۔ پہلے جدیو پھرکلدیپ بشنوئی کی پارٹی اور اب شیوسینا اس سے عام خیال یہی بن رہا ہے کہ جیسے ہی بھاجپا اپنے آپ کو تھوڑا مضبوط مان لیتی ہے ویسے ہی یہ ا پنے سیہوگی دل کو دھکا دے دیتی ہے۔ اس حساب سے اگلا نمبر سوالیوں کا ہے۔ بھاجپا نے ابھی تک مہاراشٹر میں ان کی طرف سے چیف منسٹر کون ہوگاطے نہیں کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلے سورگیہ پرمود مہاجن نے مہاراشٹر میں پارٹی کو سینچا اور سنوارا۔ پھر سورگیہ گوپی ناتھ منڈے نے ان دونوں کے جانے کے بعدمہاراشٹر میں بھاجپا قیادت صفر کے برابر ہے لیکن مود مہاجن نے یونہی نہیں شیوسینا کے ساتھ گٹھ بندھن کیاتھا وہ جانتے تھے کہ شیوسیناکیڈرپارٹی ہے اور ہند و تو دونوں پارٹیاں اگر آپس میں ہی لڑگئی تو دونوں کابٹوارہ ہوجائے گا لیکن بھاجپا کو لگتا ہے کہ مودی کی شبیہ کا ان کو فائدہ ہوگا۔ بھاجپا گٹھ بندھن کی ٹوٹنے کا ٹھیکرا شیوسینا پر پھوڑ رہے ہیں۔ سیٹوں کے بٹوارے اور مکھیہ منتری پر بھی اودھو ٹھاکرے کی وجہ سے 25 سال پرانا گٹھ بندھن ٹوٹا۔ بھاجپا ذرائع کے مطابق پارٹی کے سینئر نیتاؤں نے اودھو ٹھاکرے کو دیکھتے ہوئے مہاراشٹر چناؤ کے لئے کافی پہلے ہی رن نیتی تیار کرلی تھی۔ نئی دہلی میں بھا جپا پارلیمنٹری بورڈ اور چناؤ سمیٹی میں بیٹھکوں میں پہلے ہی مہاراشٹر کی سبھی 288سیٹوں کے لئے امیدوار طے کرلئے تھے۔ چناؤ سے پہلے سروے آنے اور بھاجپا کی قیادت کا دماغ خراب کردیا۔
مہاراشٹر نونرمان سینا کے راج ٹھاکرے کو اسی کاانتظار تھا بھاجپا بھی اگر راج سے بات کرتی ہے تو لوک سبھا چناؤ کی طرح اودھو ٹھاکرے شکوہ نہیں کرسکیں گے۔ یہ سنگم شیوسینا کے لئے بڑا جھٹکا ہوگا۔ آنجہانی شیوسینا پرمکھ بال ٹھاکرے نے اودھو ٹھاکرے کو جاں نشین اعلان کیاتھا ان دن سے وہ لگاتار اگنی پریکشا سے گزررہے ہیں۔ ان کی آلوچنا ہوئی۔ پارٹی میں بغاوت کا دور چلا۔ ان تمام جھٹکے اور جھنجھٹوں کو جھیلتے ہوئے اودھو نے مہاراشٹر کی سیاست میں پیر ٹکائے رکھا۔ 2014 کے لوک سبھا چناؤ میں شیو سینا نے 18 سیٹیں جیت کر اتہاس رچا۔لیکن اس جیت کا سہرا اودھے کو نہیں نریندر مودی کو ملا۔ اس کے بعد اودھے کی امیدوں کو پنکھ لگ گئے۔ اور وہ مہاراشٹر کا مکھیہ منتری بننے کاسپنا دیکھنے لگے۔ 1995 میں جب شیوسینا بھاجپا کی پہلی بار سرکار بنی تھی اس وقت بابری مسجد کاڈھانچہ ڈھائے جانے کے بعد دنگے کا اثر تھا۔ کیونکہ تب تک شیوسینا مراٹھی مانس کے آگے بڑھ کر ہند تو مدعے پر لوٹ آئی تھی۔ مودی لہر کے چلتے اس بار مہاراشٹر میں کانگریس این سی پی کے خلاف ماحول بنا ہوا ہے۔ لیکن اس بار بڑے دوست کا کندھا نہیں ہے۔ نئی سیاسی اتھل پتھل کے چلتے اودھے کے سامنے پھر صلاحیت ثابت کرنے کی چنوتی ہے اودھو بال ٹھاکرے اپنے پتا کے مرنے کے بعد ہمدردی پر بھروسہ کررہے ہیں۔ دوسری طرف بھاجپا کے سامنے خود کو شیوسینا سے بڑا ثابت کرنے کی چنوتی ہے۔ حالانکہ دونوں دلوں نے چناؤ بعد پھر سے ایک جٹ ہونے کا متبادل کھلا رکھا ہے۔ دوسری طرف ودھان سبھا چناؤ سے ٹھیک پہلے این سی پی کے گٹھ بندھن ٹوٹنے کے بعد کانگریس مکھیہ منتری پرتھوی راج چوہان کی ایمان دارانہ شبیہ کو مدعا بنانے کی تیاری کررہی ہے۔ کانگریس کے علاوہ مہاراشٹر میں کسی پارٹی کے پاس مکھیہ منتری عہدہ کے امیدوار نہیں ہے اس لئے پارٹی بدعنوانی سے پاک سرکار کاوعدہ کرکے لوگوں کو ووٹ دینے کی اپیل کرے گی۔ کانگریس کے رن نیتی کا رگٹھ بندھن ختم ہونے سے زیادہ پریشان نہیں لگتے۔ وہ مانتے ہیں کہ این سی پی کاساتھ چھوٹنے سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا۔ دونوں پارٹیاں اگر مل کر چناؤ لڑتی تو انہیں بھاجپا شیوسیناگٹھ بندھن ٹوٹنے سے ستہ وردھی ووٹ بٹنے کافائدہ مل سکتا تھا۔ لیکن اکیلے چناؤ لڑنے پر بھی کانگریس کا مظاہرہ اچھا رہے گا۔ کانگریس چناؤ میں سماج وادی پارٹی سمیت دوسری دھرم نیربیکش پارٹیوں کے ساتھ تال میل کرسکتی ہے۔ تاکہ سیکولر ووٹوں کابٹوارہ نہ ہو۔ بھاجپا شیوسینا گٹھ بندھن سے سیہوگی دلوں پر اثر پڑسکتا ہے۔ اس سے مہاراشٹر کے ووٹوں کابٹوارہ تو ہوگا ہی سہیوگی دلوں میں بھی نراشا ہوگی۔ پہلے جنتا دل یو پھر ایم جے سی اور اب شیوسینا کہیں نریندر مودی لہر پر بھاجپا زیادہ امید تو نہیں لگا رہی ہے۔یہ سبھی مانتے ہیں کہ مودی لہر کا گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ مزے دار بات یہ ہے کہ چاروں دل گٹھ بندھن ٹوٹنے سے خوش ہے۔ 
انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!