آن لائن پڑھائی سے محروم بچوںکے لئے اب آگے کاکیا پلان؟

کورونا کے مریضوں میں کمی کے ساتھ ریاستوں میں اسکول کھلنے لگے ہیں اس درمیان پندرہ ریاستوں ہوئے سروے سے پتہ چلا ہے کہ 56فیصد بچے ایسے ہیں جو وسائل اور سہولیات کے نہ ہونے سے آن لائن پڑھائی نہیں کر پائے وہیںجنرل پرموشن ہونے سے یہ بچے بے غیر پڑھے اگلی کلاس میں پر موٹ کر دیئے گئے ایسے میں سب سے بڑی چنوتی کہ بنا پڑھے پاس ہوئے بچے پڑھائی کے مقابلے میں کیسے ٹک پائیں گے ؟ ماہر تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر ایسے بچوں کی پڑھائی کا خصوصی انتظام نہیں ہوا تو وہ پچھڑتے ہی جائیں گے سروے والی ریاستوں میں سے کچھ میں ایسے بچوں کے لئے الگ انتظام کیا گیا لیکن اس کا بنیادی سطح پر اتار پان ابھی دور کی کوڑی لگ رہی ہے اسکول چلڈرین آن لائن اینڈ آف لائن سروے رپورٹ کے مطابق اسکول بند ہونے کا بڑ انقصان یہ ہوا ہے کہ 75فیصد بچوں کے پڑھنے کی صلاحیت گھٹ گئی ہے شہری علاقوںمیں 19فیصد اور دیہی علاقوں میں 38فیصد بچے ایسے ہیں جو بلکل آن لائن پڑھائی نہیں کر پا رہے اور دیہی علاقوںمیں 8فیصد اور شہری علاقوںمیں24فیصد بچے ہی ریگولر آن لائن کلا س لگا رہے ہیں اس کی بڑی وجہ اسمارٹ فون انٹر نیٹ کی سہولت نہ ہونا ۔ ایسے بچے بھی ریگولر پڑھائی نہیں کر پا رہے ہیں جن کے پریوار میں صرف ایک اسمارٹ فون ہے جس کا استعمال گھر کے کام کاجی افراد کرتے ہیں اس لئے وسائل اور سہولیات کو لیکر سماج میں خلا ءہے کورونا دور میں بڑھا ہے آگے اور بڑھے گا سرکار کی سطح پر ایسا انتظام ہونا چاہئے لیکن وقت لگے گا لیکن پہلی کی ضرورت ہے اساتذہ کو اسکولوںمیں بچوں کی ضرورت کے مطابق زیادہ وقت دینا چاہئے ریٹائر ٹیچر یا دیگر کو جو مفت پڑھانا چاہے انہیںرکھنے کا حق پرنسپل کو ملنا چاہئے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!