ڈرون حملے نے بدل دی آتنکی جنگ کی شکل!

جموں کشمیر ایئر فورس ایئر فورس اسٹیشن پر سنیچر کی رات ہوئے ڈرون حملے نے یہ صاف کر دیا ہے کہ ہماری مسلح فوسیز کو ڈرون سے نمٹنے میں اپنی مشن میں تیزی لانی ہوگی جس طرح پچھلے دو سال سے پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو ہتھیار مہیا کرانے کے لئے مسلسل ڈرون کا استعمال ہو رہا ہے اس سے سیکورٹی ایجنسیاں چونکنہ ہوگئی تھیں کئی فورم پر اس پر بحث ہوتی رہی ہے کہ ڈرون سے کس طرح مستقبل کے جنگ کی تصویر بدلے گی ۔ انڈین آرمی نے اس سال آرمی ڈے پر دکھایا کہ کس طرح ڈرون اٹیک کر سکتے ہیں اور آرمی پریڈ کے دوران اس کا مظاہرہ بھی کیا گیا کہ کس طرح ڈرون بغیر کسی انسانی مدد کے دشمن کے ٹھکانوں کو پختہ نشانہ بنا سکتے ہیں ۔ ڈرون کے خطرے سے نمٹنے کی تیاری مسلح افواج کر رہی لیکن ابھی بھی پوری تیاری نہیں ہے سرکار سمیت کئی فرم (پرائیویٹ بھی انٹری ڈرون سسٹم بنانے کا کام کر رہی ہیں )انڈین نیوی نے دشمن کے چھوٹے ڈرون سے نمٹنے کے لئے اسرائیل کو محدود تعداد میں کمپوٹرائز فائر کنٹرول الیکٹرو موسٹک سسٹم والا ہے اسے رائفل کے اوپر فٹ کیا جا سکتا ہے ہتھیار لگانے کے بعد چھوٹے ڈرون کو ہوا میں مار گرایا جا سکتا ہے ۔ ڈی آر ڈی او نے بھی اینٹی ڈرون سسٹم بنائے ہیں پچھلے سال پندرہ اگست کو لال قلعہ کی سفیر سے جب وزیر اعظم تقریر کر رہے تھے تب سیکورٹی میں ڈی آر ڈی اور اینٹی ڈرون سسٹم بھی اڑ رہا تھا پہلی بار سرکاری طور پر اس کی جانکاری دی گئی تھی ڈرون کسی نا کسی کمیونیکشن سسٹم سے آپریٹ ہوتا ہے اور اس کمیونیکشن کو جام کرنے سے ڈرون اپنے آپ نیچے آجاتا ہے دوسرا سسٹم جو لال قلعہ پر لگا تھا وہ لیزر بیسڈ ڈائریکٹیڈ اینرجی ویپین ہے جو کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے ڈرون کو لیزر کے ذریعے گرا سکتا ہے جموں کشمیر میں پچھلے تیس سال سے جاری دہشت گردانہ تشدد کی شکل ایئر فورس کے جموں میں واقع ٹیکنیکل ایئر پورٹ پر ہوئے ڈرون حملے سے پوری طرح بدل گیا ہے اس میں سبھی سیکورٹی ایجنسیوں کے سخت بندو بست ، اینٹی ڈرون ٹیکنک کے استعمال پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں ۔ اس طرح کے آتنکی حملے داعش نے سب سے پہلے اعراق میں کورد جنگ بازوں کے خلاف کئے تھے یہ اپنی طرح کا جموں کشمیر ہی نہیں پورے دیش میں آتنکی حملہ ہے جموں کشمیر ایئر پورٹ پر ڈرون حملے سے ایک بات ثابت ہوگئی ہے کہ جموں کشمیر میں سرگرم آتنکیوں نے آئی ایس کے طرز پر حملے کی شروعات کی ہے ڈرون کوئی بھی خرید سکتا ہے اسے آن لائن منگوایا جا سکتا ہے یہ دھماکے کے ساتھ نشانے پر گراتے ہوئے دھماکہ کر سکتا ہے یہ خود بھی تباہ ہو کر ایک طرح کا فدائی بم کی طرح بھی کام کر سکتا ہے ۔ بازار میں کئی ایسے گلائیڈر ملتے ہیں جنہیں پندرہ کلو میٹر کی دوری پر رات میں اڑا سکتے ہیں ۔ ان کے ذریعے کسی علاقے خاص کے سگنل حاصل کر سکتے ہیں یہ کسی نشانے پر سامان گرا سکتے ہیں اور کریش بھی نہیں ہونگے اس ڈرون حملے نے آتنکی تشدد کی شکل ہی بدل گی ہے بین الاقوامی سرحد سے قریب 20سے25کلو میٹر پر واقع ایئر فورس اڈے پر ڈرون سے حملہ ہو اور اس میں پاکستانی فوج کا ہاتھ نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟دہشت گردوں کو اس طرح کے ڈرون اور ٹیکنالوجی پاکستانی فوج نے ہی دی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟