سرکار بھرتی ہے یوپی کے وزراءکا انکم ٹیکس

ہم اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوںنے ریاست میں ایک بہت غلط روایت کو ختم کرنے کی ہمت دکھائی ہے میں بات کر رہا ہوں ریاست کے وزیر اعلیٰ سمیت سبھی وزراءکے انکم ٹیکس کا جو سرکار ادا کر رہی تھی ۔یوپی کے وزیر مالیات سوریش کمار کھنہ نے بتایا کہ اترپردیش وزراءتنخواہ الاونس و مسلینس ایکٹ 1981کے تحت سبھی وزراءکے انکم ٹیکس کی ادائیگی اب تک ریاستی حکومت کے خزانے سے کی جاتی رہی ہے ۔کھنہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہدایت پر یہ فیصلہ لیا گیا ہے ۔کہ اب سبھی وزیر اپنے انکم ٹیکس کی ادائیگی خود کریں گے اور سرکار ی خزانے سے یہ ادائیگی نہیں ہوگی وزیر مالیات کا کہنا تھا کہ ایکٹ کی اس سہولت کو ختم کیا جائے گا قابل ذکر کہ اترپردیش کے ویزتنخواہ بھتہ و آئینی قانون 1981میں اُس وقت بنا تھا جب وشنو ناتھ پرتاپ سنگھ ریاست کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے اس قانون کا اب تک 19وزراءاعلیٰ اور تقریبا ایک ہزار وزیروں کو فائدہ ملا وشو ناتھ پرتاپ سنگھ کے ساتھی رہے کانگریس کے ایک نیتا نے بتایا کہ قانون پاس ہوتے وقت اُس وقت کے وزیر اعلیٰ وشو ناتھ پرتاپ سنگھ نے اسمبلی میں دلیل دی تھی کہ ریاستی سرکار کو انکم ٹیکس کا بوجھ اُٹھانا چاہیے کیونکہ زیادہ تر وزیر غریب پس منظر سے ہیں اور ان کی آمدنی کم ہے ۔اس سسٹم کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے ۔کہ اترپردیش میں وزیر اعلیٰ اور سبھی وزراءکا انکم ٹیکس 1981سے ہی سرکاری خزانے سے وصولا جا رہا ہے ۔اس سال یوپی سرکار کے وزراءکا کل انکم ٹیکس 86لاکھ روپئے جمع کیا گیا ہے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ چناﺅ لڑتے وقت لوگ اپنے حلف نامے میں اپنی جائیداد کو کروڑوں روپئے میں دکھاتے ہیں لیکن انکم ٹیکس اپنی جیب سے بھرنا ان کے ایجنڈے پر نہیں آتا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اترپردیش ایک پسماندہ ریاست ہے اور سرکاری خزانے کا عوامی سہولیت پر خرچ کرنا ترجیح ہے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ سرکاری خزانے کو چونا لگانے کو لے کر ریاست کی سبھی پارٹیوں کے درمیان اس پر سمجھوتہ ہے بہرحال امانت میں خیانت کا یہ قصہ کسی ایک ریاست تک محدود نہیں ہے ممبر پارلیمنٹ بھی کئی طرح کے مالی فائدے اُٹھاتے ہیں ۔عوامی نمائندوں کے عہدے سے آزاد ہونے کے بعد بھی سرکاری بنگلے میں ڈٹے رہنا یہ چھوٹی موٹی سہولیات کے لئے لڑنے کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں ۔یوپی میں ہی کئی سابق وزراءنے برسوں سے سرکاری بنگلوں میں قبضہ جما رکھا ہے پچھلے سال سپریم کورٹ نے سختی دکھائی تو روتے پیٹتے یہ نیتا بنگلے خالی کر پائے عوام کے نمائندے اپنے لئے ساری سہولیات یقینی کر لینا چاہتے ہیں لیکن جنتا کس حال میں جا رہی ہے اُس طرف ان کی توجہ نہیں جاتی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا یہ ہندوستانی سیاست کے کس حد تک زوال کی علامت ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟