آج ہریانہ میں صرف کھٹر کی طوطی بول رہی ہے

ہریانہ کے اسمبلی چناﺅ کا اعلان کسی بھی وقت ہو سکتا ہے پہلے جس طرح کے اشارے مل رہے تھے اس سے امید کی جارہی تھی کہ پیر کو ریاست میں چناﺅ کا اعلان ہو سکتا ہے لیکن اب امکان جتایا جا رہا ہے کہ چناﺅ ضابطہ 19ستمبر کو نافذ ہو سکتا ہے ۔سینٹرل چناﺅ کمیشن دیوالی سے پہلے پہلے چناﺅ کرانے کی تیاریوں میں لگا ہوا ہے ہریانہ میں پچھلی مرتبہ 26اکتوبر کو حکومت نے کام کاج سنبھالا تھا اس لئے دو نومبر سے پہلے نئی سرکار کی تشکیل ضروری ہے بھاجپا کی چناﺅی تیار تقریبا پوری ہو چکی ہے ۔پارٹی اس مرتبہ ریاستی اسمبلی کی 90سیٹوں میں سے 50ٹکٹ پہلے اعلان کرنے کا پلان بنا رہی ہے ۔بھاجپا سے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کا پڑلہ فی الحال سب سے بھاری دکھائی پڑتا ہے ۔در اصل ہریانہ کی سیاست کے معنی بدلنے والے چوتھے لال وزیر اعلیٰ منوہر لال نے حریفوں کو چاروں خانے چت کر دیا ہے ۔اور اپوزیشن جس منوہر لال کو نہ تجربہ کار بتا کر تبدیلی اقتدار کا خواب لے رہی تھی وہ آج خود ہی حاشیہ پر آگئی ہے ۔پردیش و پارٹی نے اپنی الگ پہچان و ساکھ بنانے والے کھٹر نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہریانہ میں بغیر پرچی و خرچی کے سرکاری نوکریاں مل سکتی ہیں ۔آن لائن سسٹم نے ایسا سسٹم قائم کیا کہ اب اسے مستبقل میں کوئی بھی آنے والا وزیر اعلیٰ چھیڑ چھاڑ کی ہمت نہیں کر پائے گا ۔کھٹر پہلے ایسے وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے وزرا اور ممبران اسمبلی کو بھی بھائی بھتیجے واد ،کرپشن ،اور جانب داری سے دور رہنے کا آئینہ دکھایا ہے ۔حال ہی میں جند میں ہوئے ضمنی چناﺅ سے دھواں دھار بیٹنگ کر رہے۔ کھٹر نے اپنے تجربے و کام سے بھاجپا کی سبھی دیگر پارٹیوں سے الگ پہچان دلائی ہے کبھی ایڈین نیشنل لوک دل کا گڑھ رہے جند میں وزیر اعلیٰ نے کانگریس و بھاجپا کے سرکردہ سیاسی خاندانوں کو ایسی پٹخنی دی کہ بھاجپا کی واہ واہ ہو گئی ۔پانچ بلدیاتی اداروں کے چناﺅ میں پہلی بار بھاجپا کی کامیابی کا ڈنکا بجا وہیں ضلع کونسلوں میں بھی زیادہ تر چیر مین بھاجپا کے چنے گئے ۔ٹیلنٹ تنظیمی ورکر رہے کھٹر کے عہد میں ایک یکساں ترقی کی ایسی روایت ڈالی گئی کہ لالوں کے گڑھ(دیوی لال،بنسی لال،بھجن لال)میں بھاجپا کے جھنڈے گھروں اور چھتوں پر لگے نظر آنے لگے ہیں ۔جس جاٹ بیلٹ میں کبھی بھاجپا کا کوئی نام لینے والا نہیں تھا آج اُسی جاٹ بیلٹ میں بھاجپا اور کھٹر کی طوطی بول رہی ہے ۔آج بھاجپا ہریانہ میں سب سے مضبوط پارٹی بن کر اُبھری ہے ۔2014سے پہلے بھاجپا کبھی بھی اپنے بوتے پر سرکار نہیں بنا پائی پارٹی ہمیشہ دوسرے کی بیساکھیوں پر اقتدار کا فائدہ حاصل کرتی رہی تھی ۔1987میں بھاجپا نے چودھری دیوی لال کی پارٹی لوک دل سے اتحاد کیا تھا اُس وقت اُس کے سترہ ممبر چن کر آئے تھے ۔اُس دوران ڈاکٹر منگل سین پارٹی کے لیڈر ہوتے تھے ۔اُسکے بعد 1996میں چودھری بنسی لال کی ہریانہ وکاس پارٹی سے اتحاد کیا تو اُس کے گیارہ ممبر چنے گئے تھے ۔مگر 2014میں پارٹی کے 47ممبر اسمبلی جیتے اور پہلی مرتبہ اپنے دم پر سرکار بنائی ۔اور بھاجپا کو بے ساکھیوں چھٹکارہ دلایا ۔2019چناﺅ میں تو ایسی حالت نظر آرہی ہے ۔پوری اپوزیشن کو بے ساکھیوں کی ضرورت پڑے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟