ضروری ہوا تو میں خود سری نگر جاﺅں گا:چیف جسٹس

دفعہ 370ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں بنے حالات کو لے کر سپریم کور ٹ پیر کو آٹھ الگ الگ عرضیوں کی سماعت کی سماجی رضاکار اناکشی گانگولی کی جانب سے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے حراست میں لئے گئے نابالغ بچوں کے ماں باپ ہائی کورٹ نہیں جا پا رہے ہیں گانگولی جانب سے پیش ہوئے سینر وکیل حسین احمدی نے کہا کہ کشمیر میں حالات خراب ہیں اس لئے ہمیں سپریم کورٹ آنا پڑا چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو یہ بے حد سنگین اشو ہے ۔جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دو ہفتے میں جواب دیں کیا واقعی ہی ایسا ہے ؟ضروری ہوا تو میں خود سری نگر جاﺅں گا اگر یہ الزام غلط ثابت ہوا تو عرضی گزار کو نتیجے بھگتنے ہوں گے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کشمیر وادی میں لگائی گئیں پابندیوں کے پیچھے ٹھوس وجہ ہے کہ کشمیر کے حالات پہلے سے زیادہ خراب ہیں عدالت نے قومی مفاد اور اندرونی سلامتی کو ذہن میں رکھتے ہوئے مرکز اور جموں و کشمیر سرکار کو وادی میں حالات بہتر بنانے کےلئے ضروری قدم اُٹھانے کے لئے بھی کہا ہے سی جے آئی رنجن گگوئی ،جسٹس ایس اے بوبڑے اور جسٹس ایس عبدالنظیر کی بنچ نے یہ مختصر حکم حکومت کے پیش کردہ تفصیلات پر غور کرنے کے بعد دیا ۔مرکزی حکومت کی جانب سے پیش اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کورٹ کو بتایا کہ ریاست تین طرح کے حملوں سے لڑ رہی ہے ۔پہلا علیحدگی پسندوں کے ذریعہ پیسے دے کر سیکورٹی فورس پر پتھر بازی دوسرا پڑوسی ملک کے ذریعہ دہشتگردوں کو یہاں بھیجنا تیسرا کچھ کارو بارویوں کے ذریعہ دہشتگردوں کو ہمایت دینا اے ڈی ایم کے چیف وائی کو کے جانب سے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ ہمیں پتہ نہیں نیشنل کانفرنس کے لیڈر فاروق عبداللہ کہاں ہیں ؟کیا وہ نظر بند یا حراست میں ہیں ؟اس پر عدالت نے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا سے پوچھا کیا فاروق حراست میں ہیں ؟مہتا کا کہنا تھا کہ اس کا جواب حکومت کی ہدایت لینے کے بعد ہی دے پاﺅں گا عدالت نے تیس ستمبر تک جواب دینے کو کہا ہے ۔معاملہ عدالت میں آنے کے بعد سرکاری ذرائع کے حوالے سے خبر ملی ہے کہ فاروق عبداللہ پبلک سیکورٹ ایکٹ نظر بند ہیں یہ قانون لکڑی اسمگلروں پر سختی کرنے کےلئے ہے ۔لیکن ان کے والد شیخ عبداللہ نے ہی وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے اس قانون کو 48سال پہلے بنایا تھا ۔بد قسمتی یہ ہے کہ آج باپ کے ذریعہ بنائے گئے بیٹا اس قانو ن کے تحت آج نظر بند ہے ۔راجیہ سبھا ممبر کانگریس نیتا غلام نبی آزاد کو سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کے چارضلعوں سری نگر،بارامولہ ،اننت ناگ،اور جموں جانے کی اجازت دی ہے ۔لیکن وہ سیاسی پروگرام میں نہیںجائیں گے ۔آزاد نے کہا تھا کہ وہ لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں ۔اور حالات دیکھنا چاہتے ہیں لیکن مرکزی سرکار انہیں وہاں جانے نہیں دے رہی ہے انہیں تین مرتبہ سری نگر ائیر پورٹ سے لوٹا دیا گیا جواب میں تشار مہتا نے کہا کہ آزاد کے کشمیر جانے سے وہاں ماحول خراب ہو سکتا ہے ۔اس لئے انہیں جانے کی اجازت نہ دیں ۔اس پر عدالت نے کہا کہ آزاد کو کشمیر سے لوٹ کر عدالت کو رپورٹ دینی ہوگی ۔کہ وہاں حالات کیسے ہیں ؟سماعت کے دوران بہرحال کچھ چیزیں ضرور سامنے آئیں ہیں ۔سرکار نے دعوی کیا کہ وادی میں اخبار چھپ رہے ہیں دور درشن سمیت سارے چینل وہاں کام کر رہے ہیں کشمیر میں 88فیصد تھانے کے دائرے اختیار میں آنے والے علاقوں میں پابندی نہیں ہے ۔اپنے جوانوں اور عام شہریوں کی مرکزی سرکار کو فکر ہے اس نے عدالت کو یہ بھی یاد دلایا کہ سال 2016میں بھی ایک خطرناک آتنکوادی کی موت کے بعد جموں و کشمیر میں تین مہینے فون اور انٹر نیٹ ٹھپ پڑا تھا عرضی گزار کی ایک بڑی شکایت یہ تھی کہ جموں و کشمیر میں ہائی کورٹ تک پہنچنا آسان نہیں ہے ۔اس پر چیف جسٹس نے کافی سنجیدگی دکھاتے ہوئے جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے رپورٹ مانگی ہے ۔لیکن سرکار کا یہی کہنا تھا کہ کشمیر میں سبھی عدالتیں اور لوک عدالتیں کام کر رہی ہیں ۔سپریم کورٹ کی سرگرمی مرکزی حکومت کے لئے ایک راہ عمل ثابت ہونی چاہیے وہاں جلد سے جلد عام زندگی بحال ہو آئین کے تحت عدالت نے کی گئی ایسی کوششوں سے ہماری ہندوستانی جمہوریت مضبوط ہوگی ۔سپریم کورٹ بھی حکومت کے دعوﺅں اور مجبوریوں کو سمجھے گی ۔احتیاط وقت کی مانگ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وادی میں پابندیوں میں نرمی سے تشدد کا دور پھر نہ شروع ہو جائے کشمیری عوام کا ایک بڑا حصہ مرکزی حکومت کے اُٹھائے گئے قدموں کی تعریف بھی کر رہا ہے فاروق عبداللہ ،عمر عبداللہ ،محبوبہ مفتی کی نظربندی کوئی بہت بڑا اشو نہیں بن رہا ہے ۔حکومت کو ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ کشمیر عوام قومی دھارا سے جڑیں اور صوبے میں ترقی دیکھیں ۔مرکزی حکومت کو شش کرنی ہوگی کہ کشمیر عوام اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں انہیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مٹھی بھر علیحدگی پسند لیڈروں کی کٹھ پتلی بن کر نہیں جینا ہے اور پڑوسیوں کے ذریعہ پھیلائی جا رہی دہشتگردی سے بھلا نہیں ہونے والا ۔انہیں و مقامی فورسیز کو اپنا محافظ سمجھیں ۔پتھر بازی وغیرہ بند کرنی ہوگی ۔کسی بھی اپنی بات رکھنے کے لئے پتھروں اور بندوقوں کی کوئی قطعی ضرورت نہی پڑے اور ہندوستانی آئین تحت ہی امن اور ترقی آئے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟