نوٹ بندی جی ایس ٹی کے اثر سے بیٹھ گئی معیشت!

معیشت کو لے کر روزانہ جس طرح سے نئی نئی خبریں اور تفصیلات سامنے آرہی ہیں وہ اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ بھارت میں مندی کا جو ماحول جاری ہے وہ معمولی بات نہیں بھلے ہی حکومت یا کچھ ماہر اقتصادیات اسے عالمی مندی کا اثر بتا رہے ہوں یا ریزرو بینک جیسے مالی ادارے اسے تھوڑے وقت کا بحران مان کر چل رہے ہوں لیکن صنعتی دنیا کس طرح سے ڈھمگاتی نظر آرہی ہے وہ ہماری اقتصادی نظام کے لئے کسی بھی طرح سے اچھا نہیں مانا سکتا خاص طور پر جب وزیر اعظم نے اگلے پانچ سال میں پانچ لاکھ کروڑ کی معیشت بنانے کا نشانہ طے کیا ہے جمعرات کو جھارکھنڈ میں ایک ریلی سے خطاب میں پی ایم مودی نے کہا کہ چناﺅ کے وقت میں نے وعدہ کیا تھا کہ لوگوں کو کامدار دمدار،سرکار دیں گے ۔ایک ایسی سرکار جو پہلے سے زیادہ رفتار سے کام کرئے گی سو دن میں دیش نے اس کا ٹریلر دیکھ لیا ہے ۔پانچ سال میں پکچر ابھی باقی ہے ۔وزیر اعظم کے دوسرے عہد میں دیش کی معیشت بگڑنے کی سب سے بڑی چنوتی بن کر ابھری ہے ۔اور پہلے سو دن میں تو اس کی پکچر بہت خراب ہوئی ہے ۔سابق وزیر اعظم اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا کہ دیش اس وقت سنگین اقتصادی سست روی کا سامنا کر رہا ہے ۔سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ سرکار کو اس کا احساس تک نہیں ہے یہ اقتصادی سستی ہے ۔منموہن سنگھ نے معیشت کو پٹری پر لانے کے لئے پانچ منتر بھی بتائے کانگریس صدر سونیا گاندھی کی قیادت میں ہوئی پارٹی لیڈروں کی میٹنگ میں منموہن سنگھ نے کہا اگر یہی حالات رہے تو 2024-25تک پانچ ہزار ارب ڈالر کی معیشت بنانے کے پی ایم مودی کا نشانہ پورا ہونے کی امید نہیں ہے ۔سستی کا یہ دور نوٹ بندی ،اور غلط طریقہ سے جی ایس ٹی نافذ کرنے سے آیا ہے ۔سرکار سنجیدگی دکھائے توبھی اس سے نمٹنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں ۔سستی سے نمٹنے کے پانچ منموہنی قدم پہلا :جی ایس ٹی کی شرحوں با دلیل بنانا ہوگا دو:زراعت سیکٹر پر توجہ :تیسرا:ماکیٹ میں پیسے کا چلن بڑھانے کے لئے قرض کی کمی دور کریں :چوتھا:زیادہ روزگار دینے والے سیکٹروں پر مخصوص توجہ پانچواں :نئے ایکسپورٹ مارکیٹ دیکھی جائے ۔بتادیں اقتصادی سستی کی خبروں کے درمیان جولائی میں صنعتی پیداوار گروتھ ریٹ 4.3فیصدی ہو گئی جو جون میں 2فیصدی تھی حالانکہ پچھلے سال بھی اسی مہینے کے 6.5فیصدی سے کم رہی تھی ۔حالانکہ پچھلے دنوں معیشت کو بحران سے نکالنے کے لئے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے ایک کے بعد ایک کئی اقدامات کا اعلان کیا لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معیشت کی ڈاما ڈول حالت سے سرمایہ کاروں سے لے کر عوام تک کے اندر ایک طرح کا خوف پیدا ہو گیا ہے ۔اور ان میں بے چینی بڑھی ہے ۔لوگ خرچ کے لئے جیب سے پیسہ نکالنے سے بچ رہے ہیں ۔پتہ نہیں کب تک اس بحران اورکس نئے بحران کا سامنا کرنا پڑ جائے۔یہی وجہ ہے کہ بازار میں پیسے کی ریل پیل نہیں ہو پار ہی ہے ۔اور نقدی کی مشکل ہے ۔جب تک یہ سلسہ نہیں ٹوٹے گا تب تک ملک کی معیشت کو پٹری پر لانا ممکن نہیں ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ اقتصادی اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں میں بھروسہ پیدا کیا جائے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟