طالبان کا افغان پارلیمنٹ پرحملہ
کابل میں افغانستان کی پارلیمنٹ پر طالبان دہشت گردوں کا حملہ اس دیش میں منڈرا رہے خطرے کی سنگینیت کو نئے سے سے بیان کرتا ہے۔ بیشک یہ باآور رہنے والی بات ہے کہ طالبان کو ان کی منشا پر کامیاب نہیں ہونے دیا گیا لیکن افغانستان کی پارلیمنٹ کو نشانہ بنا کر طالبان نے اپنے ارادے تو صاف کردئے ہیں کہ آنے والے دن وہاں کے لئے اور شورش والے ہونے والے ہیں۔ دراصل طالبان کا حوصلہ تو پچھلے سال کے آخر میں ہی نیٹو فوج کی افغانستان سے باقاعدہ وداعی کے بعدبڑھ گیا تھا۔ پیر کو پارلیمنٹ پر ہوئے حملہ کا شاید نشانہ نئے مقرر وزیر دفاع محمد معصوم ستنی کزئی تو نہیں تھے پچھلے 9 مہینے سے دیش میں وزیر دفاع کا عہدہ خالی تھا۔ صدر اشرف غنی اور پہلے ان کے حریف اور اب سرکار میں ساتھی عبداللہ عبداللہ کے درمیان وزیر دفاع کے نام پر عدم اتفاقی کی وجہ سے یہ عہدہ اب تک خالی پڑا ہوا تھا۔ پچھلے دنوں وزیر دفاع کے لئے ستنی کزئی کو نامزد کیاگیاتھا۔ پیر کو ان کی تقرری پر مہر لگانے کے لئے پارلیمنٹ کے ایوان میں ان کا تعارف کرانے کی کارروائی چل رہی تھی اسی دوران پارلیمنٹ پر طالبان دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ یہ راحت کی بات ہے کہ پارلیمنٹ پر حملے میں ممبران اور سکیورٹی فورس کے جوان اور عام شہریوں کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے سکیورٹی فورسز نے پارلیمنٹ کو نشانہ بنانے والے آتنکیوں کو مار گرایا۔ سکیورٹی فورسز نے جس مستعدی سے آتنک وادیوں کے منصوبے کو ناکام کیا اس سے یہ صاف ہے کہ وہ طالبان کا مقابلہ کرنے اور منہ توڑ جواب دینے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ البتہ افغانستان کے موجودہ بحران میں دو پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک تو یہی کہ اشرف غنی نے بیحد چیلنج بھرے وقت میں افغانستان کی باگ ڈور سنبھالی۔ اس میں ملک کے تمام قبائلی گروپوں کو شیشے میں اتارے رکھنے کی ویسی صلاحیت نہیں ہے جیسی سابق صدر حامد کرزئی میں تھی۔ دوسرا یہ کہ آئی ایس کے افغانستان میں دبدبہ بنا لینے کے بعد طالبان کی یہ جارحانہ بالادستی کی لڑائی میں آگے بڑھنے میں دوڑ لگ سکتی ہے۔ حامد کرزئی کی جگہ پر صدر کی کرسی پر بیٹے اشرف غنی نے پچھلے دنوں جس طرح مبینہ طور پر اپنی سلامتی مضبوط کرنے کیلئے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ سمجھوتہ کیا اس سے بھارت سمیت عالمی برادری کا فکرمند ہونا فطری ہے اس سے مطمئن نہیں ہوا جاسکتا۔ حامد کرزئی اور ان کے ساتھیوں کی مخالفت کے باوجود اشرف غنی نے اپنے قدم پیچھے کھینچ لئے ہیں لیکن یہ معمہ بنا ہوا ہے آخر انہوں نے آئی ایس آئی سے ہاتھ ملانے کے بارے میں سوچا ہی کیوں؟ طالبان کی موجودہ جارحیت کو نہ صرف پچھلی ایک دہائی میں سب سے خطرناک حملہ بتایا جارہا ہے بلکہ اس سال کے ابتدائی چار مہینے میں دہشت گردانہ تشدد میں وہاں قریب ایک ہزار شہریوں نے جان گنوائی ہے۔ موجودہ حالت پوری دنیا کے لئے انتہائی تشویش کا باعث ہے اور یہ پورے خطے کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں