پچھلے 5 برسوں میں مہلا شرابیوں کی تعداد25 فیصد بڑھی
ایک نئے جائزے میں دعوی کیا گیا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں عورتوں میں شراب پینے کی لت25فیصد بڑھی ہے۔ عورتوں میں شراب برداشت کرنے کی صلاحیت مردوں سے کم ہوتی ہے۔ ان کا شراب پینے کے بعد گاڑی چلانا زیادہ خطرے بھرا ہوتا ہے۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق عورتوں کے جسم میں پانی کی مقدار مردوں سے کم ہوتی ہے اس لئے جب یکساں وزن والا مرد اور عورت برابر مقدار میں شراب پیتے ہیں تو عورت کو نشا زیادہ ہوتا ہے انہیں زیادہ چڑھتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے الکحل ہضم کرنے کے لئے ضروری ہے ہضم کرنے والا مادہ جو عورتوں میں کم ہوتا ہے۔ ہندوستان میں شراب پینے والی عورتوں پر زیادہ اسٹڈی نہیں ہوئی ہے، لیکن ایک غیر سرکاری تنظیم کے اعدادو شمار کے مطابق فی الحال دیش میں شراب پینے کے معاملے میں عورتوں کا تشدد پانچ برسوں میں بڑھ کر 25 فیصد ہوجائے گا۔ پچھلے دنوں ممبئی میں کارپوریٹ وکیل جیہانی گاڈکر کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سوال اٹھ رہے ہیں کہ یہاں بھی شراب پینے والی عورتوں پر پختہ مطالع کیا جائے۔ شراب بنانے والی کمپنیاں ہندوستانی عورتوں کو راغب کرنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑ رہی ہیں، وہیں شراب کی لت چھڑانے کیلئے اصلاح گھر پہنچنے والی عورتوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اسٹڈی کے مطابق مرد طلبا کے مقابلے میں عورتیں زیادہ شراب پیتی ہیں وہیں امریکہ میں ایک دہائی میں نشے میں دھت گاڑی چلانے کے الزام میں گرفتار ہونے والی عورتوں کی شرح فیصد میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2013ء تک کے اعدادو شمار کے مطابق شراب پینے والی عورتوں میں محض پانچ فیصدی زیادہ عورتیں ہیں۔ ان کی تعداد میں اگلے پانچ برسوں میں پانچ فیصدی اضافہ ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ نشے کیلئے عورتوں کے جسم میں پانی کی کمی ذمہ دار ہوتی ہے۔ یکساں وژن کے مرد اور عورتیں برابر شراب پینے ہیں تو عورت کے خون میں الکحل کی موجودگی زیادہ ہوگی۔ ایسا نائیٹروڈین یونیورسٹی کی ایک اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر ہیمنت مشیر جسلوک ہسپتال ممبئی کا کہنا ہے کہ عورتوں کو مردوں کی بہ نسبت دیری سے شراب ہضم ہوتی ہے اس لئے عورتوں کو زیادہ تیزی سے نشا ہوتا ہے۔ ان کے پیٹ میں شراب ہضم کرنے کے لئے اینزائم سطح بہت کم ہوتی ہے۔ بھارت میں عورتوں میں شراب پینے کا ٹرینڈ بڑھتا جارہا ہے۔ خاص کر نوجوانوں میں۔ ان ریوو پارٹیوں میں شراب تو عام بات ہے۔ ڈرگس کے ساتھ شراب کا خطرناک کمبینیشن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس بڑھتے ٹرینڈ کو کیسے روکا جائے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں