مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی!

بھارتیہ جنتا پارٹی کی مودی سرکار تنازعات میں گھیرتی جا رہی ہے۔ پارٹی میں ناراضگی بھی بڑھ رہی ہے۔ للت مودی تنازعہ رکتا نظر نہیں آرہا ہے۔ پارٹی کے بڑے لیڈر بھلے ہی اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بیان بازی رک نہیں رہی ہے۔ بھاجپا ایم پی و سابق ہوم سکریٹری آر کے سنگھ نے للت مودی کو بھگوڑا قرار دیتے ہوئے ان کی مدد کرنے والے لیڈروں کو کٹھگرے میں کھڑا کردیا ہے سنگھ نے وزیر خارجہ سشما سوراج اور راجستھان کی وزیراعلی وسندھرا راجے کانام لئے بغیر دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھگوڑے کی مدد کرتا ہے یا اس کے ملتا ہے یہ قانونی اور اخلاقی طور پر دونوں طرح سے غلط ہے۔بھاجپا صدر امت شاہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی، وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ و ٹرانسپورٹ وزیر نتین گڈ کری کے کھل کر وسشما وسندھرا کی حمایت لینے کے بعد بھاجپا ایم آر کے سنگھ کے بیان سے صاف ہوگیا ہے کہ پارٹی میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے آر کے سنگھ کے بیان کو بھاجپا ایم پی کیرتی آزاد کے بیان کا رد عمل مانا جارہا ہے۔ آزاد نے سشما کے حق میں کھڑے ہوکر آستین کے سانپ ہونے کا بیان دے کر تنازعہ کھڑا کردیا تھا۔ اب سنگھ نے اس کے برعکس سشما اوروسندھرا پر نکتہ چینی کی ہے۔ دونوں ہی بہار سے ایم پی ہے اس کا سیدھا اثر بہار میں ہونے والے اسمبلی چناؤ پر بھی پڑ سکتا ہے۔ پچھلے دنوں شری لال کرشن اڈوانی نے وارننگ دی تھی کہ ایمرجنسی عہد کا خطرہ بھی ٹلا نہیں ہے۔ اب پی جے بی کے سینئر لیڈر یشونت سہنا نے اپنی ہی پارٹی کی سرکار کو نشانہ بنایا ہے ان سے منگلوار دیر رات ایک پروگرام میں نریندر مودی اور سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے کام کاج کے موازنے پر سوال پوچھے گئے تھے۔ انہو ں نے مرکز میں ’’میک ان انڈیا‘‘ کے پروگرام میں کہا ہے کہ پہلے بھارت بناؤ، باقی خود ہوجائے گا۔شری یشونت سنہا نے کہا ہے کہ بھاجپا میں جو بھی 75سال سے زیادہ عمر کے تھے ان کو سبھی کو’’برین ڈیڈ‘‘ قرار دے دیا ہے میں بھی پارٹی کے ان ’’برین ڈیڈ‘‘ لوگوں میں شامل ہوں۔ بدھوار کو مودی حکومت کی ایک اور وزیر مرکزی انسانی وسائل ترقی اسمرتی رانی کولیکر مشکل میں پھنس گئی ہے۔ بدھوار کو دہلی کی ایک عدالت نے ایرانی کے خلاف ملی شکایت کو سماعت کے لائق مانا، جس میں ان پر چناؤ کمیشن کو اپنی تعلیمی استعداد کی غلط جانکاری دینے کا الزام لگایاگیا ہے۔ حالانکہ عدالت نے اس سلسلے میں ایرانی کو سمن بھیجنے سے پہلے شکایت کنندہ سے اورثبوت مانگے ہیں۔فری لانس صحافی احمر خاں نے عدالت میں عرضی دائر الزام لگایا تھا کہ ایرانی نے 2004سے 1914تک مختلف انتخابات لڑنے کے لئے دی حلف ناموں میں اپنی تعلیم الگ الگ بتائی تھی۔ پارٹی میں ناراضگی صاف ابھر کر سامنے آگئی ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس کاآنے والے بہار چناؤ میں کیا اثر پڑتا ہے؟ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟