بھاری تباہی کے ڈھیرے پر ہے دہلی

زلزلے کے نظریئے سے دہلی تباہی کے دہانے پر ہے۔ راجدھانی میں زیادہ تر مکانات کو دیکھ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی خوفناک زلزلہ آجائے تو دہلی کا کیا ہوگا؟ جب کبھی دنیا میں زلزلہ آتا ہے یا دہلی کے آس پاس کے علاقے میں زلزلہ آتا ہے تو دہلی کا تذکرہ ہونے لگتا ہے اور جیسے جیسے وقت گزرتا ہے سب بھول جاتے ہیں اور سب کی پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔ مانو سب ٹھیک ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک کوئی 6 ریختر اسکیل سے زیادہ کا زلزلہ دہلی میں نہیں آیا۔ورنہ بہت نقصان ہوسکتا ہے۔ سسمک زون چار میں آنے کے چلتے دہلی کی 70 فیصد سے زیادہ تعمیرات زلزلے کے نقطہ نظر سے خطرناک ہیں۔ یہاں کام مسلسل جاری ہے وہیں ووٹ بینک کی سیاست میں سرکار بھی غلط تعمیرات کی منظوری دینے پر تلی ہوئی ہے۔مزید ایف اے آر(فلور ایریا ریشیو) دے کر تعمیرات اور بھی زیادہ خطرناک بنائی جارہی ہیں۔ ایسے میں زلزلے کی تیزی 6 سے زیادہ ہونے پر دہلی کی تباہی ہونے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ وزیر آباد سے بابر پور تک جمنا بہاؤ خطے میں ہوئی تعمیرات بیحد خطرناک ہیں۔ ماہرین کی مانیں تو زلزلے کا ذرا سا بھی تیز جھٹکا اس پورے علاقے میں رہنے والے قریب50 لاکھ لوگوں کی جان کیلئے آفت بن سکتا ہے۔ پریشانی کا سبب یہ بھی ہے کہ جمنا کنارے ایسے لوگوں کے مکان ہیں جن کی گزشتہ 10 سال میں کوئی مرمت نہیں کرائی گئی۔ ظاہری طور سے ان میں بسے لاکھوں لوگ زبردست دہشت میں ہوں گے۔ ماہرین مانتے ہیں کہ نیپال میں جس طرح سے زلزلہ آیا ہے اگر دہلی میں آجائے تو دہلی کا70 فیصد صفایا ہوجائے گا۔ وجہ دہلی شہر میں 30 فیصد عمارتیں ہیں زلزلے سے محفوظ ہیں۔ ان عمارتوں کے باقی کے مقابلے قدرتی آفت کی صورت میں بچے رہنے کے زیادہ امکان ہیں۔ مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ پانی کی بڑھتی مانگ کو پورا کرنے کیلئے زمینی پانی کی زیادہ کھنچائی ہورہی ہے۔ جس سے علاقہ ریگستان میں تبدیل ہورہا ہے۔
جغرافیائی ماہرین کے مطابق زلزلے کی رفتار کا اثر سخت علاقے کی بہ نسبت ریتیلی زمین پر زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر شہر میں تیز زلزلہ آتا ہے تو زیادہ بربادی ہوگی۔ دوسری طرف قدرتی آفات مینجمنٹ قانون بنے کے 10 سال بعد بھی راجدھانی میں کسی بھی آفت سے نمٹنے کے لئے کوئی ٹھوس پلان نہیں بن سکا ہے۔ دہلی سرکار ہائی کورٹ میں بھی یہ بات قبول کر چکی ہے۔ چیف جسٹس جی۔ روہنی، جسٹس راجیو سہائے اینڈ لا کی بنچ کی مداخلت کے بعد سرکار نے قدرتی آفات قانون کے تحت اسکیم بنانے کا یقین دلایا ہے۔ ایک عرضی کی سماعت کے دوران بنچ نے کہا تھا قانون کو بنے قریب ایک دہائی گزر چکی ہے۔اب کیا اس میں 100سال لگیں گے۔ قدرتی آفات مینجمنٹ قانون کے تحت نہ صرف فوری راحت و بچاؤبلکہ متاثرین کی بساست کیلئے بھی خصوصی پلان بنانے کی سہولت ہے۔دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ دہلی بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے اور کسی کو اس کی فکر نظر نہیں آتی بس اوپر والے کا ہی سہارا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!