گھناؤنے جرائم میں16 سال کے لڑکے کو بالغ مانا جائے

نربھیا آبروریزی کانڈ کے بعد یہ مطالبہ مسلسل اٹھتا رہا ہے کہ گھناؤنے جرائم کو انجام دینے والے لڑکوں کے ساتھ ان کی عمر کی بنیاد پر کوئی نرمی نہ برتی جائے۔اب مرکزی سرکار نے اس فیصلے کے ذریعے اس طرف اہم قدم بڑھایا ہے۔جرم کی سنگینی کی بنیاد پر طے کیا جائے گا کہ ملزم لڑکے پر مقدمہ جوئینائل جسٹس کورٹ میں چلے گا یا عام عدالت میں۔ مرکزی کیبنٹ نے لڑکا انصاف قانون میں ترمیم کو منظوری دے دی ہے جس کے مطابق قتل اور آبروریزی جیسے گھناؤنے جرائم کے معاملے میں 16 سے18 برس تک کے لڑکے جرائم پیشہ کے خلاف بالغ ملزموں جیسا مقدمہ چلانے کی سہولت ہے۔ دسمبر 2012ء میں دہلی میں ہوئے نربھیا کانڈ کے بعد سے اس قانون کی شقات کو لیکر بحث چل رہی تھی۔ دراصل اس بربریت آمیز جرائم میں ایک 17 سالہ لڑکا بھی تھا جسے چائلڈ اصلاحت گھر بھیجا گیا۔ حالانکہ آبروریزی کے معاملے میں سخت قانون بنانے کے واسطے قائم کردہ جسٹس جے ایس ورما کمیشن چائلڈ جرائم کے معاملے میں عمر میعاد گھٹانے کے حق میں نہیں تھا۔ سورگیہ جسٹس ورما کا کہنا تھا کہ ہمارے سماجی ڈھانچے کی وجہ سے اس کاصحیح سے تعین نہیں کیا جاسکتا لیکن دیش میں بالغ ہونے سے اس کے حق یا مخالفت میں دو رائے رہی ہیں۔یہاں تک کہ پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی تک نے چائلڈ جرائم کی عمر گھٹانے کی مانگ کو مسترد کردیا تھا۔ حقیقت میں اس مسئلے کو بدلتے حالات میں دیکھنے بھی ضرورت ہے۔ جہاں لڑکوں کی پہنچ اس کے ساتھ ہی جرائم کے وسائل تک بھی بڑھی ہے لیکن بنیادی حقیقت بتاتی ہے کہ2013ء میں 2074 لڑکوں نے ریپ کیا اور ان میں 2054 ریپ کرنے والوں کی عمریں16 سے18 سال کے درمیان تھیں۔ موجودہ قانون کے مطابق 18 برس سے کم کے لڑکے کو عام قانون کے تحت سزا نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اسے جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔ چائلڈ جسٹس قانون میں زیادہ تر سزا تین برس ہے اور یہ میعاد لڑکے کو بال سدھار گرہ میں گزارنی پڑتی ہے۔ مرکزی کیبنٹ کے ذریعے منظور مجوزہ ایکٹ کے مطابق جوئینائل جسٹس بورڈ ہی طے کرے گا کسی لڑکے کے ذریعے جرائم ایک نابالغ کے طور پر انجام دیا گیا یا بالغ کے طور پر۔بورڈ میں نفسیات کے ماہر اور سماج کے ماہر کی موجودگی یقیناًاس بات کو باآور کرانے میں معاون ہوگی کہ کسی لڑکے کو نا انصافی کا شکار نہ ہونا پڑے۔ اس طرح سرکار نے جوئینائل عمر میعاد میں کمی نہ کرتے ہوئے یہ یقینی کرنے کی کوشش کی ہے کہ لڑکوں کے ذریعے انجام دئے جانے والے گھناؤنے جرائم کے قہر پر لگام لگائی جاسکے۔ سپریم کورٹ نے بھی جس طرح 6 اپریل کو جرائم میں لڑکوں کی بڑھتی شمولیت سے پیدا حالات کو لیکر قانونی نکات میں تبدیلی کی امید کی تھی۔ مجوزہ ایکٹ اسے پورا کرنے کا ارادہ دکھاتا ہے۔ نربھیا کانڈ میں ہم نے دیکھا کہ اس گھناؤنے جرائم کا ماسٹر مائنڈ محض اس لئے بچ گیا کیونکہ وہ کچھ ہی مہینوں کی وجہ سے نابالغ ثابت ہوگیا۔ جب وہ جرم منجھے ہوئے مجرموں کی طرح کرتا ہے تو سزا بھی اسے ایک سنگین جرائم کی طرح ملنا چاہئے۔ ہم سرکار کے اس قدم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!