اور اب کمزور مانسون سے نپٹنے کی چنوتی

یہ خبر بلا شبہ مایوسی پیدا کرنے والی ہے کہ اس سال بھی مانسون عام طور سے کم رہے گا جس وقت زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں پچھلے سال کے خراب مانسون اور بعد میں بے موسم بارش اور ژالہ باری کی مار سے شکار ہورہا اسکی ساری امیدیں آگے کی امکانات پر ٹکی تھی۔ پچھلے سال کی بہ نسبت مانسونی بارش سے جو دقتیں پیدا ہوئی وہ گزشتہ دنوں بے موسم بارش اورژالہ باری سے اور بڑھ گئی ہے اب محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ مانسون توقع سے کم ہونے کا اندیشہ ہے محکمہ موسمیات کا مزید کہناہے کہ ہوسکتا ہے کہ مانسونی بارش 93 فیصد تک ہی رہے اس کی وجہ پرشانت مہاساگر میں النینو اثرات کی موجودگی بتائی جارہی ہے۔النینو کی وجہ سے پرشانت مہاساگر کا پانی عام طور سے زیادہ گرم ہوجاتا ہے اس سے مانسون کے بادلوں کابننا اور بھارت کی طرف سے اس کی رفتار کی کمزور ہوجاتی ہے۔ اگر دیش میں خشک سالی کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو یہ محض دیش کے کسان کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری معیشت کے لئے تشویش کی وجہ بن رہی ہے۔ اگر کسان کی جیب میں پیسہ نہیں ہوگا تو بازار کی چال کو مندی کی زد میں آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ دوسری طرف جب تک مہنگائی کی مار سے نہیں بچایا جاسکتا بھارت میں موسم کے حالات اس بار زیادہ سنگین ہیں پھر بھی اس طرف جتنی توجہ دینے کی ضرورت ہے اتنی نہیں دی جارہی ہے یہ پہلی بار نہیں جب کسان بے موسم بارش کا شکارہوا ہے قریب قریب ہر برس دیش کے کسی حصے میں یا تو سیلاب آتا ہے یا خشک سالی ہوتی ہے اس بار فصلوں کی تباہی کادائرہ ضرور بڑھا ہے لیکن کسانوں کی خودکشی کے معاملے یہ ہی بتا رہے کہ وہ خود کو زیادہ ہی پریشانی میں گھیرتا پارہے ہیں اس بحران کی ایک بڑی وجہ کسانوں کا وہ قرض بھی ہے جو کسانوں لے رکھا ہے اور اب فصل کی بربادی کے چلتے ان کے لئے اس کا چکانا مشکل ہوگیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ پتہ ہوناچاہئے کہ ایک بڑی تعداد میں کسان اپنی ضرورتوں کے لئے ساہوکار۔ سود خوروں سے قرض لیتے ہیں جن کسانوں نے بینکوں سے قرض لیا ہوا ہے ان کی تعداد محدود ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ ان کسانوں کو بینکوں سے کچھ راحت مل جائے لیکن ساہوکاروں اور سود خوروں سے قرض لینے والے کسانوں کو کہیں کوئی راحت نہیں ملنے والی۔ قلیل المدتی طور پر محض 93 فیصد بارش ہونے کا ہی امکان ہے جو گھٹ کر 88 فیصد رہ سکتی ہے۔ مرکزی سائنس وتکنالوجی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن نے ہندوستانی محکمہ موسمیات کے سائنسدانوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے دیش کے کچھ حصوں میں خشک سالی کا اندیشہ جتایا ہے بھارت جیسے دیش میں جہاں کھیتی کا بڑا حصہ موسمی بارش پر منحصر ہے ایسی قیاس آرائیوں کا اثر سنجیدگی سے سمجھاجاسکتا ہے۔ دراصل مانسون پیش گوئیوں کے ساتھ خاص کر بھارت میں یہ مسئلہ ہے کہ ٹھیک ٹھاک سے یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ کم بارش کااثر کن علاقوں میں زیادہ ہوگا جو بارش ہوگی وہ کب ہوگی۔ نتیجتاً کسان بروقت ہنگامی حالات سے مقابلے کے لئے تیار نہیں ہوپاتے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!