دفعہ66 اے کو سپریم کورٹ نے دی سزائے موت

جمہوریت کی حفاظت میں دیش کی سپریم عدالت اور عام آدمی کی آزادی کے لئے خوش آئین اشارہ ہے۔ سپریم کورٹ نے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ66A کو جس طرح سے غیر آئینی قرار دیا اس سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ اس قانون کا بیجا استعمال اس لئے ہورہا تھا ، کیونکہ اس کو بنایا ہی غلط نیت سے گیا تھا۔متنازعہ دفعہ 66A کو منسوخ کرکے آئین کی دفعہ19 کے تحت ملے نظریات اور اظہار خیال کی آزادی کو ہی نیا باب دے دیا ہے۔ دراصل انٹر نیٹ کے بڑھتے دائرے کے ساتھ ہی اس کے ذریعے نشر ہونے والے مضر مواد کو کنٹرول کرنے کے لئے قانون کی ضرورت محسوس کی گئی تھی جس کے نتیجے میں آئی ٹی ایکٹ وجود میں آیا مگر اس کی دفعہ66A کی ٹھیک سے تشریح نہ کئے جانے سے سرکاروں اور پولیس کو سوشل نیٹ ورکنگ یا دیگر سائٹ پر مبینہ قابل اعتراض خیالات یا مواد ڈالنے سے متعلق شخص کے خلاف کارروائی کا منمانا اختیار مل گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے آئی ٹی ایکٹ قانون کے جس ہتھیار کو مہرہ بنایا ہے اس کے خلاف آواز قانون کے ہی ایک نوجوان طالبا نے اٹھائی تھی۔ عدالت نے بھی اپنی آواز کو جوڑتے ہوئے جمہوریت کی بنیاد کو ہلنے سے بچا لیا۔ اظہار خیال کی آزادی بغیرکیسا پرجاتنتر اور کیسالوک تنتر؟ دفعہ66A کو غیر آئینی اور اظہار خیال کی آزادی کے خلاف بتاتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا فیصلے کا عام طور پر خیر مقدم ہی ہوا ہے کیونکہ پچھلے دنوں اس کے بیجا استعمال کے کئی معاملے سامنے آئے تھے۔ اس قانون کے تحت یہ ممکن تھا کہ اگر کسی لیڈر کے کسی کارٹون یا اس کے خلاف رائے زنی کو فیس بک پر کسی نے لائک کرلیا یا فارورڈ کردیا تو اسے گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ یہ اندیشے نہیں تھا ۔اس طرح کے کئی قصے سامنے آئے تھے یہ قصے کسی ایک علاقے یا ریاست کے نہیں ہیں نہ ہی اس قانون کا بیجا استعمال کرنے میں صرف ایک پارٹی کی سرکار قصور وار ہے۔ بلکہ مغربی بنگال، مہاراشٹر، اترپردیش جیسی کئی ریاستوں میں ایسے تبصروں کے لئے لوگوں کو جیل کی سزا بھگتنی پڑی ہے جنہیں عام سیاسی اظہار خیال کہا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دیش کی دونوں۶بڑی سیاسی پارٹیوں، بھاجپا اور کانگریس کے بڑے لیڈروں نے دفعہ66A کی نکتہ چینی کی تھی لیکن دونوں پارٹیوں نے اسے ختم کرنے کی پہل نہیں کی، بلکہ یہ کام سپریم کورٹ نے کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ حکومتوں اور سیاسی طبقے کیلئے ہی نہیں بلکہ اخلاقیات کے خود ساختہ جھنڈا برداروں کیلئے بھی ایک سخت پیغام ہے لیکن اظہار خیال کی آزادی کا یہ مطلب بھی قطعی نہیں ہے کہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا جائے۔اس کے ساتھ ہی یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے نظریات اور اظہار خیال کی آزادی غیر محدود نہیں ہے بلکہ وہ قانون اور آئین کے دائرے میں ہے۔ حالانکہ سائبر دنیا کے بیجا استعمال کا اندیشہ اب بھی بنا ہوا ہے۔ اسے صرف استعمال کرنے والے کے ضمیر کے بھروسے نہیں چھوڑا جاسکتا لیکن اس کو دیکھنے کے لئے اور بھی ضمیر چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟