بڑا سوال: ہاشم پورہ قتل سانحہ کا ذمہ دار کون
مقدمے لڑنے والے فریق کے مطابق میرٹھ فسادات کے دوران ماہ رمضان میں 22 مئی1987ء کو ہاپوڑروڈ پر گلمرگ سنیما کے سامنے ہاشم پورہ محلے میں پولیس ، پی اے سی اور ملٹری نے تلاشی مہم چلائی اور یہاں سے ایک فرقہ خاص کے قریب 50 لوگوں کو ٹرکوں میں بھر کر پولیس لائن میں لے جایا گیاتھا۔ ایک ٹرک کو دن چھپتے ہی پی اے سی کے جوان مراد نگر گنگ نہر پر لے گئے تھے۔ وہاں پی اے سی کے جوانوں نے ٹرک سے اتار کر لوگ کو گولی مارنے کے بعدایک ایک کر لاشوں کو گنگ نہر میں پھینک دیا۔ گولیوں کی آواز سن کر ٹرک میں بیٹھے دوسرے لڑکوں نے بغاوت کرنے کی کوشش کی تو جوانوں نے ٹرک کے اندر اندھا دھند گولی چلا دی۔ بعد میں ٹرک غازی آباد میں ہنڈن ندی پر لے جایا گیا اور لاشوں کو وہاں پھینک دیا۔ ان میں سے کچھ لوگ گولی لگنے کے باوجود بچ گئے تھے۔ انہی میں سے ایک شخص بابو الدین نے غازی آباد کے لنک روڈ تھانے پہنچ کر رپورٹ درج کرائی تھی جس کے بعد ہاشم پورہ سانحہ پورے دیش میں موضوع بحث بن گیا۔ ہاشم پورہ کے 42 بے گناہوں کی موت حراست میں قتل کی خوفناک ترین مثال تھی ۔ قریب28 برس کے بعد آیا اس کا فیصلہ اس سے کم مایوسی پیدا کرنے والا نہیں ہے جس میں استغاثہ کے ذریعے شناخت ثابت کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے سبھی ملزمان رہا ہوئے ہیں۔28 سال بعد آئے عدالت کے اس فیصلے کو اگر انصاف کا مذاق کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ایسا کہنے کے پیچھے مقصد عدلیہ کے ارادے پر سوال اٹھانا نہیں ہے۔ عدالتوں کے فیصلے تو دلائل اور ثبوتوں کی روشنی پر مبنی ہوتے ہیں، جنہیں مضبوطی سے پیش کرنے کی ذمہ داری جانچ ایجنسیوں کی ہوتی ہے۔ اگر گزرے28 سال میں 42 بے گناہوں کے گناہگاروں کو سزا دلانے لائق مقدمہ کھڑا نہیں کیا جاسکا تو یہ یا تو جانچ میں جان بوجھ کر برتی گئی لاپرواہی کا نتیجہ ہے یا سی بی سی آئی ڈی کی کوتاہی کا۔ عدلت نے اس بنیاد پر ملزمان کو بری کیا کہ سبھی پانچ گواہ انہیں پہچان نہیں پائے۔ غور طلب ہے کہ یہ وہ پانچ لوگ تھے جنہیں الزام کے مطابق مارے گئے لوگوں کے ساتھ ہی پولیس اٹھا کر لے گئی تھی۔ سنیچر کی دوپہر تین بجکر 30 منٹ کے بعد عدالت کے فیصلے کی جانکاری ملی تو یہاں کے ہزاروں لوگ ہکا بکا رہ گئے۔ لوگ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ملزمان کو سخت سزا ہوگی لیکن انہیں ثبوت کی کمی کی وجہ سے بری کردیا جائے گا ایسا کسی نے سوچا تک نہیں تھا۔ کچھ لوگ اندازہ لگا رہے تھے کہ کم سے کم عمد قید تو ہوگی ہی۔ متاثرہ کنبوں نے سرکار کے ساتھ انتظامیہ کو اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ وہ انصاف کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ سرکار انتظامیہ اور قانون کے راج میں ایسی مثالیں بہت کم ملیں گی جس میں فرقہ خاص کے درمیان ہمارے نظام کے محافظ کچھ لوگ کچھ بے قصور لوگوں کو پکڑ کر لے جائیں، پھر رات کے اندھیرے میں انہیں ایک ایک کر گولی مار دیں۔ ایسی بربریت کا موازنہ یا تو ہٹلر نازی کے مظالم سے کیا جاسکتا ہے یا جدید دور میں ذات پات کے لئے خطرناک بہار کے بتھانی ٹولہ، لکشمن پور باتھے اور شنکر دگا میں ہوئے قتل عام سے جہاں سماج کے کمزور لوگ بار بار اعلی برادریوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ہاشم پورہ سانحہ کو دیش کے کسی ناقابل پہنچ علاقے میں نہیں، قومی راجدھانی سے محض50-60 کلو میٹر دور انجام دیا گیا تھا۔ جس قتل سانحہ نے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو ہاشم پورہ کا دورہ کرنے کے لئے مجبور کیا تھا اس کی جانچ کی ذمہ داری سی بی آئی کو دینے کے بجائے کانگریس کی ہی اس وقت کی ریاستی سرکار نے سی آئی ڈی کو دی تھی۔ اگر تفتیش صحیح ڈھنگ سے ہوتی تو آج حالات الگ ہوتے۔ اگر سی بی سی آئی ڈی وردی پہنے گناہگاروں کو تلاش کر انہیں سزا نہیں دلا پائی تو اس میں یا تو اس کی نا اہلیت ظاہر ہوتی ہے یا بد نیتی۔ بہرحال اس فیصلے سے بہت غلط پیغام جانے کا خطرہ ہے۔ دیش کے اندرونی اور باہری دشمن اس کا حوالہ دے کر ایک طبقے کو ورغلانے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن سچائی یہ ہے اس کالینا دینا کسی فرقے کے تئیں اپیل در اپیل سے نہیں بلکہ سسٹم کے کردار سے ہے۔ اس فیصلے نے عدلیہ مشینری کی سستی کی کوتاہی اور پولیس اصلاح کو درکنار کرنے کی پھر سے نشاندہی کی ہے۔جب تک پولیس اور عدلیہ مشینری کی ان خامیوں کو دور نہیں کیا جاتاانصاف کا مذاق اڑانے والے ایسے فیصلوں کے آتے رہنے کا اندیشہ بنا رہے گا۔ بیشک ہاشم پورہ کے متاثرین کیلئے بڑی عدالت میں جانے کا دروازہ کھلا ہے لیکن سماج کے کمزور طبقوں کو اجتماعی طور پر نشانہ بنانا پھر استغاثہ کے ذریعے لاپروائی برتنے جس میں متاثرہ انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں ،اس طرح کے واقعاتکو دیش کی ساکھ کے لئے ٹھیک نہیں مانا جاسکتا جو اپنی جمہوری شفافیت اور قانون کے راز پر فخر کرتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں