گؤ کشی پر روک پھر بھی 61 لاکھ کلو یومیہ بیف کی کھپت

ہندوستان میں ہندوؤں کیلئے گائے کی خاص اہمیت ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ کچھ ریاستوں نے آخر کار گؤ کشی پرپابندی لگا دی ہے۔ 20 سال کی لمبی لڑائی کے بعد آخر کار مہاراشٹر حکومت گؤ نسل کشی پر پوری طرح سے پابندی لگانے میں کامیاب ہوئی ۔ ریاست میں گؤ کشی 1976 ء سے ممنوع ہے، اب بیل ،بچھڑے کاذبحہ بھی غیر قانونی ہے۔ اس طرح دیش کی 29 ریاستوں میں سے 24 میں گؤ کشی پر پابندی ہے۔ ادھر ہریانہ اسمبلی میں پیر کے روز ہریانہ گؤ ونش تحفظ و گؤ سنوردھن(پروسسنگ) بل 2015ء کو ایک آواز سے منظوری مل گئی ہے۔ ساتھ ہی اب پردیش میں گؤ کشی غیر ضمانتی جرم مانا جائے گا اور قصورواروں کو 3 سے10 سال کی قید و 1 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ ایک طرف تو پابندی لگ رہی ہے لیکن زمینی حقیقت تو دوسری ہی تصویر پیش کرتی ہے۔ جارکھنڈ،مہاراشٹر، دہلی ،اترپردیش، پنجاب میں پابندی کے باوجود گؤکشی جاری ہے۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، گجرات اور راجستھان میں گؤوں کے ذبحہ کرنے کے معاملے تو سامنے نہیں آئے ہیں، لیکن یہاں گؤوں کی اسمگلنگ ہوتی رہتی ہے۔ بہار میں گؤوں کے ذبحہ پر پابندی نہیں ہے لیکن یہاں غیر لائسنسی ذبحہ خانوں میں غیر قانونی گؤ کشی ہوتی ہے۔ جارکھنڈ میں یومیہ 500 گائے ذبحہ کی جارہی ہیں۔ سال میں گؤ کشی۔ اسمگلنگ کے 312 معاملے درج ہوئے۔ جارکھنڈ میں اوسطاً 500 سے1000 گؤ کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔پنجاب میں ایک برس میں 4 ہزار گائے چھڑائی گئیں۔ حالت یہ ہے کہ گزرے چار برسوں میں بھارت میں بیف یعنی گؤ نسل اور بھینس کے میٹ کی کھپت میں قریب10 فیصد اضافہ ہوا ہے 2011 ء میں بیف کی کھپت2.4 لاکھ ٹن تھی جو 2014ء میں بڑھ کر 22.5 لاکھ ٹن ہوگئی ہے۔اس کے برعکس جانور شماری کے مطابق گؤ نسل کی تعداد میں 2007ء کے مقابلے2012ء میں 4.1 فیصد کمی آئی ہے۔ بھارت نے پچھلے برس 19.5 لاکھ ٹن بیف کا ایکسپورٹ کیا۔ بھارت بیف برآمدات میں دنیا میں نمبر دو پر ہے۔ چونکانے والا اعدادو شمار یہ ہے کہ روز ہندوستان میں 61 لاکھ کلو بیف کی کھپت ہے۔ کیرل میں کانگریس لیڈر شپ والی حکمراں یو ڈی ایف اور مارکسوادی پارٹی کی قیادت والا اپوزیشن ایل ڈی ایف بھلے ہی مختلف اشوز پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہوں، لیکن گؤ کشی اور گؤ میٹ پر ملک گیر پابندی لگانے کے این ڈی اے حکومت کے قدم کے خلاف متحد ہوکر سامنے آئے ہیں۔ یوڈی ایف اور ایل ڈی ایف دونوں نے ہی ریاستی سرکار کے اس قدم کونجی آزادی کی خلاف ورزی قراردیا ہے۔ وزیراعظم کے دفتر میں حال ہی میں وزارت قانون سے مشورہ مانگا ہے کہ کیا مرکز گجرات سمیت کئی ریاستوں میں گؤ کشی کے خلاف نافذ کئے گئے قوانین کو ماڈل بل کے طور پر دیگر ریاستوں کے پاس بھی بھیج سکتی ہے تاکہ وہ اپنے یہاں ایسے قوانین کے بارے میں غور کرسکیں۔ جیسا کہ میں نے کہا گائے کی ہر ہندو کیلئے خاص اہمیت ہے وہ گائے کو ماتا کا ایک روپ مانتے ہیں۔ گؤ کشی پر پابندی لگنا چاہئے اور گؤ میٹ کے ایکسپورٹ پر بھی پابندی لگنی چاہئے۔ بہار، کیرل، مغربی بنگال، میگھالیہ اور ناگالینڈ میں ابھی بھی گؤ کشی پر پابندی نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!