کسان خودکشی کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟

دیش کے کسانو ں نے بڑی امیدوں سے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے من کی بات شیئر کرتے سنا ہوگا، ورنہ گاؤں دیہات سے آج کون بات چیت کرتا ہے؟ موقعہ معقول تھا کیونکہ بے موسم برسات اور اولوں کی مار سے برباد ہوئی فصلوں سے کسان بیزار ہے۔ بارش و زالہ باری کے سبب فصلیں برباد ہونے سے کسانوں کی موت کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے۔ حال ہی میں 6 کسانوں سے مایوسی کے سبب خودکشی کرلی ہے۔اورئی میں 3 ،مہوبا، للت پور اور باندا میں ایک ایک کسان کی موت ہوگئی ہے۔ یہ سبھی اترپردیش میں ہوئی ہیں۔جمن پور ؍ڈکور(اورئی) کے رامپورہ کے قصبہ جگت پور میں بھگوان داس (65) سال کی فصل چوپٹ ہونے کے غم میں موت ہوگئی۔ اس کے پاس چار ایکڑ زمین تھی ، گیہوں کی فصل پک کر تیار تھی۔ بارش سے فصل چوپٹ ہوگئی۔ڈکور کے موضع قابل پورہ کے باشندے رام بہاری(38) سال نے بھی زہر کھا کر جان دے دی۔ رام بہاری پر 8 لاکھ کا قرض تھا۔چرکی کے موضع کھاکھڑی کے باشندہ مہاویر فرزندگوچرن سنگھ کی برباد فصلیں دیکھ کر دل کا دورہ پڑنے سے موت ہوگئی۔ کسانوں کو امید بندھانے کی سخت ضرورت ہے اور یہ کام وزیر اعظم سے بہتر اور کون کر سکتا تھا۔ مودی کی ’من کی بات ‘ کے بیشک اپنے سیاسی مفادات رہے ہوں ، جو تحویل اراضی قانون کے حق میں وزیر اعظم کے الفاظ سے جھلکے بھی لیکن کسانوں کے سروکاروں سے سیدھے بات چیت کی اس پہل کی انتہائی ضرورت تھی، چاہے آپ اسے سیاسی، سماجی یا سرکاری کسی بھی نظریئے کے چشمے سے دیکھیں۔ تیزی سے صنعتوں کے پھیلاؤ سے آج زراعت کی اہمیت اور بالادستی گھٹتی جارہی ہے۔ دیش کی جی ڈی پی میں اس کا اشتراک اب 20 فیصدی سے بھی نیچے آگیا ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آج بھی ہماری آبادی انہی کھیت کھلیانوں کی بدولت اپنا پیٹ بھرتی ہے۔ وزیر اعظم کی یہ پہل اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ زیادہ تر سیاستدانوں کو ہمارے ان داتاؤں کی تبھی یاد آتی ہے جب انہیں چناؤ میں ان کے ووٹ چاہئے ہوتے ہیں۔ لیکن اقتدار کی چابی ہاتھوں تک پہنچتے ہی دیش کی سب سے بڑی بے وسائل آبادی کو ان کی تقدیر پر چھوڑدیا جاتا ہے کہ وہ قدرت کے بدلتے تیوروں کا مقابلہ ننگے ہاتھ اور خون پسینے سے کرے تاکہ خوشحال آبادی تک کھانا پانی کا سامان بلارکاوٹ پہنچتا رہے۔خود حالات سے پریشان ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور ہو۔ مہاراشٹر میں پچھلے 7 مہینے میں کسانوں کی خودکشی کے معاملے 40 فیصد بڑھ گئے ہیں۔ پہلے زبردست خشک سالی سے کھیتوں میں کھڑی فصلیں جل گئیں،خوشک سالی نے کھیتوں میں کھڑی فصلیں جلا ڈالیں اور پچھلے دنوں آئی بے موسم بارش اور زالہ باری نے دوسرے دور کی فصلوں کو بھی زمین دوز کردیا۔ مہنگی کھاد ،بیج، کیڑے مار دواؤں کے بڑھتے خرچ سے پریشان کسان بھاری قرض کا بوجھ کیسے جھیلیں یہ سوال سب کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے۔ آدی صدی پہلے تک اتم پیشہ مانے جانے والی کھیتی آج سب سے زوال پذیر اور خطرناک کیوں ہوگئی ہے، پیداوار کا فائدہ ، قیمتیں کیسے وقت پر سیدھے کسان تک پہنچیں، پیداوار کو محفوظ رکھنے کیلئے آسان اور اثر دار طریقے سے مناسب بیمے کا انتظام کرنا سب سے بڑی چنوتی ہے۔ان داتا کی اس دردشا پر سبھی کو تشویش ہونی چاہئے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!