پوتن کی بوکھلاہٹ نے بڑھا دیا نیوکلیائی حملے کا امکان!

روس اور یوکرین کے درمیان پچھلے ایک مہینے سے جاری جنگ میں نیوکلیائی ہتھیاروں کے استعمال کی آہٹ پھر سنائی دینے لگی ہے ۔اتنے دن بعد بھی روس کی فوج کو زمینی راستے سے آگے بڑھنے میں جدو جہد کرنی پڑ رہی ہے ۔اسے جنوبی یوکرین میں مسلسل یوکرین کی فوج سے زبردست ٹکر مل رہی ہے ۔جنگ لمبی کھچنے اور دنیا میں درکنا ر کئے جانے سے روس کے صدر ولادمیر پوتن کی بوکھلاہٹ بڑھتی جارہی ہے ۔امید کے مطابق کامیابی نہ ملنے سے مایوس روس نے پھر دھمکی بھرے انداز میں کہا کہ جینے مرنے کا سوال ہوا تو ہم نیوکلیائی ہتھیاروں کے استعمال سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔روسی صدر ولادیمیر پوتن کے دترجمان دمتری پیسکاف نے اعتراف کیا کہ روس نے ابھی تک یوکرین میں کسی بھی فوجی اپنے مقصدکو حاصل نہیں کیا ہے انہوں نے نیوکلائی ہتھیاروں کی مدد لینے سے انکارتو کیا ہے لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ اگر جینے مرنے کا سوال کھڑا ہواتو روس نیوکلیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گا ۔قومی سیکورٹی ہمارا ایک منصب ہے اور یہ شرعام ہے ۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کن حالات میں نیوکلیائی ہتھاروں کے استعمال کی بات کی گئی ہے ۔یوکرین پر حملے کے چنددن بعدبھی پوتن نے سیاسی طور پر اہم ہتھیاروں جن میں نیوکلیائی ہتھیار بھی شامل ہیں کو خاص طور پر الرٹ رکھنے کے احکامات دئیے تھے ۔اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کون ہمارے دیش و لوگوں کے لئے خطرہ پیدا کرتا ہے ۔انہیں پتہ ہونا چاہیے روس فوری جواب دے گا اور نہیں بھی ایسا ہوگا لیکن جو کسی سرزمین کی پوری تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا ہوگا ۔امریکی ماہرین بھی خدشہ جتا رہے ہیں کہ پوتن اب چھوٹے نیوکلیائی حملے کر سکتا ہے ۔وہ نیوکلیائی حملے کی وارننگ لگاتار دے رہا ہے اور اس نے اپنے نیوکلیائی ٹکڑی کو تیار رکھا ہوا ہے ۔روسی فوج نیوکلائی ایٹمی پلانٹس پر حملے کررہی ہے ۔اس مسئلے پر نیٹو کی مٹنگیں بھی ہو رہی ہیںاس پر بھی غور و خوض ہوگا کہ روس کیمیکلل یا بائیوجیکل ،نیوکلیائی ہتھیاروں کی طرف جاتا ہے کہ اسے کیسے جواب دیا جائے ؟ ویسے دوسری جنگ عظیم کے وقت جب امریکہ نے جاپان کے ہیروشلما پر حملہ کیا تھا تب بھی روس کے پاس زیادہ نیوکلیائی صلاحیت تھی ۔آج امریکہ کے پاس نیوکلیائی صلاحیت اور ہیروشیما پر گرائے گئے بم سے ایک ہزار گنا ہے تو روس کے پاس تین ہزار گنا ہے ۔اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل اینٹونیو بوٹریس نے کہا کہ یہ بے تکی جنگ ہے اس کا پر امن طریقہ سے ٹیبل پر بیٹھ کر مسئلے کا حل کیا جا سکتا ہے ۔اس لڑائی سے بھوک اور عالمی بحران کی آہٹ سنائی دے رہی ہے اک کروڑ یوکرینی لوگ اپنے گھروں سے نکل کر ھجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟