جیل جانے کے بعد بھی وزیر کیوں نہیں چھوڑتے عہدہ !

ممبئی کی ایک اسپیشل عدالت نے پیر کو مہاراشٹر حکومت کے وزیر و این سی پی لیڈر نواب ملک کی جودیشل حراست چار اپریل تک بڑھا دی ہے اور انہیں جیل میں ایک بستر ، گدااور کرسی کے استعمال کی اجازت دے دی ہے ۔ ملک کو ای ڈی نے بھگوڑے بدمعاش سرغنہ داو¿د ابراہیم اور اس کے ساتھیوں سے جوڑے اثاثہ جمع کرنے کی جانچ کے سلسلے میں 23فرروی کو گرفتار کیا تھا۔ ملک 7مارچ تک حراست میں تھے پھر ان کی حراست 31مارچ تک کر دی گئی ۔ پیر کو نواب ملک کو ایک خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔جسے اثاثہ بڑھانے روک تھام ایکٹ سے متعلق معاملوں کی سماعت کیلئے پینل کیا گیا تھا اسپیشل جج آر این روکانڈے نے ا ن کی جوڈیشل حراست 4اپریل تک بڑھا دی ہے۔ جیل میں ہونے کے باوجود انہونے نہ تو وزیر کے عہدے سے استعفیٰ اور نہ ہی ادھو ٹھاکرے نے ان سے استعفیٰ مانگا۔ مہاراشٹر میں حکمراں اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک سے استعفیٰ نہیں مانگیں گے ۔ کیوں کہ ان پر لگے الزامات سیاسی اغراض پر مبنی ہے اور انہیں پریشان کرنے کیلئے ایسا کیا گیا ہے۔ دلیلیں کچھ بھی ہوں ، لیکن سیدھا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شخص جیل جانے کے بعد بھی وزیر بنا رہ سکتا ہے؟ ایسا کیا ہے کہ ملک ایک مہینے سے زیا دہ مدت سے جیل میں بند ہونے کے باوجود وزارت کی کر سی پر قابض ہیں۔اور حکمراں پارٹی سینا ٹھوک کر ان کی ترفداری کر رہی ہے؟ ماہرین کی مانیں تو اس کے پیچھے قاعدے قانون صفر ہے جیل میں بند داغی وزیر کو عہدے سے ہٹانے کے بارے میں نہ تو قانون ہے اور نہ ہی کنڈکٹ رول میں کچھ کہا گیا ہے۔ایک سرکاری ملازم اگر دو چار دن جیل میں رہتا ہے تو اس کو معطل کر دیا جاتا ہے لیکن ایک وزیر ایک مہینے سے زیادہ جیل میں ہونے کے باوجود عہدے پر بر قرار ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو جس حالت سے نمٹنے کے دو ہی طریقے ہیں قانون بنے یا پھر عدالت حکم دے عدالت کسی مسئلے کو تب تک تشریح نہیں کرتی یا کوئی فیصلہ نہیں دیتی ہے جب تک اس کے سامنے کوئی معاملہ نہیں آتا ۔ ایسے معاملوں میں کورٹ نوٹس لے کر فیصلہ نہیں دیتی۔دوسرا طریقہ ہے کہ آئین سازیہ ہی اس پر قانون بنائیں ۔لیکن سوال کہ سیا سی مفادات کے ایسے اشو پر کیا سیاست داں ایک ہوں گے؟لوک سبھا کے سابق سیکریٹری جنرل اور ماہرین آئین سبھاش کشیپ کہتے ہیں کہ جیل میں وزیر کے عہدے پر رہنا چاہیے یا نہیں اب بات کم سے کم کورٹ آف کنڈکٹ میں آنی چاہیے موجودہ حالت یہ ہے کہ جب تک عدالت سے کسی کو قصور وار نہیں ٹھہرا یا جاتا یا وہ بے قصور مانا جاتا ہے ۔ موجودہ قانون میںزیر سماعت قید ی کے طور پر جیل میں رہتے ہوئے وزیر بنے رہنے پر روک نہیں ہے۔ حالاںکہ اخلاقیت کا تقاضہ ہے جیل جانے پر استعفیٰ دے دینا چاہئے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی وہ بھی پبلک سرونٹ بتائے جانے پر کشیپ کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ بحث کا اشو ہے ۔ ابھی تک طے نہیں ہے کہ کس کس اشو پر وہ پبلک سروینٹ مانے جائیں گے؟موجودہ قانون میں تو قصور وار پائے جانے اور سزا ہونے پر ہی ایم پی یا ممبراسمبلی نا اہل ہیں اور تبھی ان کی ممبر شپ جاتی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟