مندی کی مار سے متاثر ہماری معیشت

وزیر اعظم نریندر مودی نے مالی سال 2024-25 تک بھارت کو پانچ عرب امریکی عرب والی معیشت بنانے کا جو نشانہ رکھا ہے وہ کافی بھرا ہے اس وقت ہندوستان کی معیشت قریب 2.7 عرب امریکی ڈالر کی ہے اب موجودہ حالت حولہ افزاءنہیں مانی جاسکتی کیونکہ بھارت مندی کے دور سے گزر ہے اقتصادی سروے کا اندازہ ہے کہ وزیر اعظم کے طے کردہ نشانہ تک دیش کی گھریلو پیداوار کو ہر سال 8 فیصدی کی شرح سے بڑھنا ہوگا اس نشانہ کے برعکس دیس کی معیشت میں ترقی کی رفتار سست ہوگئی ہے پچھلے تین سال سے ایسا ہورہا ہے صنعت کے بہت سے سیکٹر ترقی کی شرح کئی سال سے نیچلی سطح تک پہونچ گئی ہے دیس کی معیشت کی صحت کیسی ہے اس کا اندازہ ہم ان پانچ اشاروں سے لگا سکتے ہیں۔ پہلا جی ڈی پی دیس کے گھریلو فسکل پیدا وار یعنی جی ڈی پی پچھلے برسوں میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے ۔ 2016-17 میں جی ڈی پی 8.2 فیصدی تھی جو 2017-18 میں گھٹ کر 7.2 فیصدی رہ گئی سال 2018-19 میں گر کر 6.8 فیصدی ہوگئی سرکاری اعداد و شمار پر غور کریں تو سال 2019 کی جنوری سے مارچ کے درمیان جی ڈی پی ترقی شرح 5.8فیصد رہ گئی ہے جو پچھلے پانچ سال میں سب سے کم ہے۔صرف تین سال میں ترقی شرح کی رفتار 1.5 فیصد کی کمی بہت بڑی کمی ہے۔ جی ڈی پی ترقی کی شرح گھٹنے کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی ، کھپت ، بچت ، سرمایہ کاری اور سب پر اثر پڑرہا ہے ترقی شرح گھٹنے سے لوگوں کی آمدنی پر برا اثر پر رہا ہے۔ مجبوراً لوگ اپنے خرچوں میں کٹوتی کرنی پڑرہی ہے گراہکوں کی خریداری میں کمی آگئی ہے اور سب سے زیادہ کمی کا آثر آٹو پر پڑا ہے سب سے زیادہ کمی کار کمپنی ماروتی کی فروخت 16.68 فیصد تک گری ہے دوپہیہ ہیرو ہنڈا موٹر کار کی بکری 12.45 فیصد گری ہے اور یہ پرائیوٹ کمپنیوں کے اعداد و شمار ہےں بکری کی گراوٹ سے اعداد گرنے کے لئے لوگ اپنے نوکریوں میں کٹوتی کر رہی ہے اور دیس بھر میں آٹو موبائل ڈیلروں نے پچھلے تین مہینوں میں لوگوں کی چھٹنی کی ہے ۔ یہ اعداد وشمار فیڈریشن آف آٹو موبائلس ڈیلرس ایسوسی ایشن کے ہیں۔ ملازمتوں میں یہ کٹوتی ، آٹو صنعت میں کی گئی اس کٹوتی سے الگ ہے ۔ اب اپریل 2019 سے پہلے کے 18 مہینوں کے دوران دیس کے 271 شہروں میں گاڑیوں کے 288 شو روم بند ہوگئے اس کی وجہ سے 32 لوگ بے روزگار ہوگئے کھپت کی کمی کی وجہ سے ٹاٹا موٹرز جیسی کمپنی کو اپنے گاڑیوں کے پروڈکشن میں کٹوتی کرنی پڑ رہی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کل پرزے اور دوسرے آٹو سیکٹر سے جڑے لوگوں پر برا اثر پڑ رہا ہے جیسے جمشید پور اور آس پاس کے علاقوں میں 30 فولادی کمپنیاں بند ہونے کے دہانے پر کھڑی ہیں ایک درجہ کے قریب کمپنیاں تو پہلے ہی بند ہوچکی ہیں معیشت کی ترقی کی رفتار دھیمی ہونے کی وجہ سے ریئل اسٹیٹ سےکٹر پر بھی ہوا ہے اور بلڈروں کا کہنا ہے کہ دیس کے 30 بڑے شہروں میں 12.76 لاکھ مکان بکنے کے لئے بنے پڑے ہیں اس کا مطلب ہے ان شہروں میں جو مکان فروخت کے لئے تیار ہے ان کا کوئی خریدار نہیں ہے آمدنی بڑھ نہیں رہی ہے اور بچت کی رقم بغیر بکے ہوئے مکانوں میں پھنسی ہوئی ہے اور معیشت کی دوسری پریشانیوں کی وجہ سے گھریلو بچت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے گھریلو بچت کی جو رقم بینکوں میں جمع ہوا کرتی تھی اسی پر وہ کاروباریوں کو قرض دیا کرتے تھے ۔ جب بچت میں گراوٹ آتی ہے بینکوں کے قرض دینے کی رفتار بھی گھٹ جاتی ہے اور آج ملک کے بینکوں کا حال بہت برا ہے اور بینکوں کے پاس قرض دینے کے لئے پیسہ نہیں اورعام طور پر جب گھریلو بازار میں کھپت کم ہوتی ہے تو ہندوستانی صنعتکار اپنا سامان برآمد کرنے اور بیرون ملک میں اپنے سامان کا بازار تلاشتے ہیں اور لیکن آج حالت یہ ہے کہ غیر ملکی بازار میں ہندوستانی سامان کے خریدار نہیں ہیں اور اس کی وجہ سے ہندوستان کا ایکسپورٹ مسلسل گھٹتا جارہا ہے مئی کے مہینہ میں برآمداد کی ترقی کی شرح 3.9 فیصد تھی لیکن اس سال جون میں یہ گھٹ کر -9.7 گراوٹ آئی ہے یہ اکتالیس مہینوں میں سب سے کم برآمدات شرح ہے ۔ اگر معیشت پر بحران کے بادل ہوں تو اس کا اثر غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی پڑتا ہے اپریل 2019 بھارت میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 3.3 عرب ڈالر تھی لیکن مئی مہینہ میں یہ گھٹ کر 5.1 ارب رہ گئی۔ مودی سرکار کا پہلا عہد شاندار تھا لیکن جلد ہی وہ بے سمت ہوگیا معیشت میں ڈھانچہ بند تبدیلیوں کے جس بلیو پرنٹ کا اعلان ہوا تھا اسے 2015 کے آخرمیں ہی ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا گیا۔ مزدوری ، زمین سے جڑے قوانین سے اصلاحات ادھوری ہےں زرعی سیکٹر کی ترقی کی شرح کی کمی سے نمٹنے کے لئے میک ان انڈیا کی شروعات کی گئی تھی لیکن اس کا بھی برا حال ہے ۔ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی کو ہربڑی میں اٹھائے گئے قدموں کا سیدھا اثر معیشت پر پڑا ہے ۔ ٹیکس اصلاحات کی جو امید تھی وہ اس سال کے بجٹ میں کوئی نظر نہیں آئی۔ وزارت کے مالیات کے حکام کے ذریعے پی ایم او کو بار بار آگاہ کئے جانے کے باوجود منموہن سرکار سے وراثت میں ملی دیس کی بدحال بینکنگ اور مالی نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی پالیسیاں بنانے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔ پچھلی کئی دہائیوں میں ایسا کئی بار پہلے بھی ہوا ہے جبکہ وزارت مالیات میں ایسا کوئی اعلیٰ افسر نہیں ہے جس کے پاس معیشت میں پی ایم ڈی کی ڈگری ہو اور جو معیشت کی بڑھتی چنوتیوں سے نمٹنے کے لئے سرکاری پالیسیاں بنانے میں مدد کر سکے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟