وزیر اعظم کے خطاب سے نکلے پیغام اور اشارے

دہلی کے تاریخی لال قلعہ کی صفیل 15 اگست کو وزیر اعظم کا جو خطاب ہوتا ہے وہ نہ صرف اپنی سرکار کے کارناموں کو گنانا ہوتا ہے بلکہ امکانی حکمت عملی کو بھی ظاہر کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی اس سے بہت سے قومی اور بین الاقوامی پیغام دیئے جاتے ہیں اس مرتبہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایسے ہی پیغام دیئے جیسے برننگ ایشو کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کو لے کر الگ الگ رد عمل سامنے آرہے ہیں اس لئے اس پر تقریر کرنا فطری تھا وزیر اعظم نے اسباب کی نشان دہی کی ہے جس کے چلتے اس دفعہ کو ہٹانا ضروری ہوگیا تھاآگے کا روڈ میپ کا بھی ذکر کیا مجھے یاد ہے کہ جب 2014 میں انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے سوچھ بھارت ابھیان کا اعلان کیا تھا تب شاید کسی کو احساس نہ تھا کہ وہ آنے والے وقت میں وہ عوامی تحریک کی شکل لے لے گا۔ جیسا انہوں نے لیا ۔ اس مرتبہ یوم آزادی کی 73 ویں سالگرہ پر انہوں نے پانی کی تحفظ کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے گھر گھر پانی پہنچانے کے لئے انہوں نے پانی مشن کا اعلان کیا ہے۔اس مرتبہ عوامی بہبودی قدم کے علاوہ وزیر اعظم نے مہاتما گاندھی کی 150 ویں جینتی کو یادگار بنانے کے لئے 2 اکتوبر سے پلاسٹک الوداع مہم کا اعلان کردیا ہے ایک بار پھر وزیر اعظم کی قیادت کسوٹی پر ہوگی کیونکہ عام آدمی کی ساجھیداری کے بغیر یہ مہم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں بہت کچھ تذکرہ کیا لیکن جو اہم بات ہے وہ ہے بڑھتی آبادی کی چیلنجوں کو نشاندہی کرتے ہوئے مرکز اور ریاستی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آبادی کے اقدامات کے بارے میں بھی سوچیں ۔ اور امکانی قدم اٹھائیں انہوں نے جس طرح صاف صاف لفظوں میں کہا کہ چھوٹا خاندان رکھنا بھی دیش بھکتی ظاہر کرنے کا کا طریقہ ہے اور ہر کسی کو سوچنا چاہئے کہ جو بچہ زمین پر آنے والا ہے اس کی ضروریات کی اشیاءاور اس کے خوردونوش کا انتظام کیسے کیا جائے گا اس کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے اور انہوں نے کہا کہ افواج کا کام ٹھیک ٹھاک چلانے کے لئے ایک چیف آف ڈیفنس کا بھی تقرری کردی ہے اور یہ مانگ کارگل جنگ کے وقت سے چلی آرہی تھی لیکن کنہیں وجوہات کے وجہ سے ٹلتی آرہی تھی۔ نئی چیلنوں کا سامنا کرنے کے لئے حکمت عملی سطح پر فیصلہ قابل تحسین ہے اور اپنی دوسری میعاد میں اپنے پہلے خطاب میں معیشت کو خاص توجہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی ڈھانچہ بندی نظام پر سوا لاکھ کروڑ روپئے خرچ کئے جائیں گے ۔ اگلے پانچ سال میں بھارت کو ٹریلئن ڈالر اکنومی بنانے کا نشانہ کو دہراتے ہوئے کہا کہ 130 کروڑ آبادی اگر چھوٹی چھوٹی چیزوں کو لے کر چل پڑیں تو یہ کام آسانی سے ممکن ہوسکتا ہے اور مینو فیکچر کو بڑھاوا دینے کی بات کہی اور پی ایم نے ہیتلھ وغیرہ کی سیکٹروں میں بہتری لانے کے ساتھ سیاحتی سیکٹر کو بھی مضبوط کرنے بھی زور دیا ہے اور دیش میں سیاحت کے فروغ میں بہت امکانات ہیں اور اگر اس پر ٹھیک سے توجہ دی جائے تویہ ایک نئے روزگار پیداکرنے اور محصول کے نقطہ نظر سے بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے ۔ مودی نے 92 منٹ کی تقریر میں زندگی کے مختلف پہلوو ¿ں کو چھونے کی کوشش کی لیکن ان کا اہم توجہ دو باتوں پر مرکوز تھیں ۔ سرکار 75 دنوں کے کارنامے اور امکانی ایجنڈا فطری تھا کہ وہ تین طلاق اور 370 اور 35اے ہٹائے جانے کا تذکرہ کرتے حریفوں کو آڑے ہاتھوں لینا نہیں بھولے ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے سرکار کی پالیسی کو واضح کردیا ۔ یعنی ایک دیش ایک آئین دیکھنا اب یہ ہوگا کہ خود اعتمادی سے بھرپور وزیر اعظم اور ان کی حکومت اپنے دوسری میعاد کو اپنے عظم کو تعبیر کرنے میں کتنی کامیابی حاصل کرتی ہے اور پی ایم نے اپنے دوسرے عہد کے ابتداءمیں جیسے تاریخی فیصلہ لئے ہےں کہ لال قلعہ سے وزیر اعظم جو بھی اعلانات کئے ہیں وہ آنے والے وقت میں جو خاکہ کھینچا ہے ویسے میں واقعی یہ حقیقت ثابت ہوسکتی ہے۔ 
(انل نریند)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟