چیف جسٹس رنجن گگوئی کی لائق خیر مقدم پہل !

بچیوںکے ساتھ بدفعلی کے بڑھتے واقعات پر سپریم کورٹ اس قدر فکرمند ہے کہ اس نے اپنی طرف سے نوٹس لیتے ہوئے مفاد عامہ عرضی داخل کرلی عدالت کا کہنا ہے کہ پچھلے 6ماہ میں بچیوں سے عصمت دری کے 24ہزار سے زیادہ معاملے درج ہونا جو اپنے آپ کو جھنجھوڑ کررکھ دینے والے ہیں چیف جسٹس رنجن گگوئی کی بنچ نے بتایا یا کہ یکم جنوری سے جون تک اس سال دیش بھر میں بچیوں سے بدفعلی کے واقعات کے بارے میں 24212ایف آئی آر درج ہوئیں ۔ ان میں سے 11981معاملوں میں جانچ جاری ہے ۔جبکہ 12231معاملوں میں فرد جرم داخل ہوچکی ہے لیکن مقدمہ صرف 6449معاملوں میں ہی شروع ہوسکاہے ان میں بھی صرف چار فیصدی یعنی 911معاملو ںکانپٹارہ ہوا ۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی 2016کی رپورٹ کے مطابق بچیوں کے ساتھ جسمانی چھیڑ چھاڑ کے معاملے اترپردیش میں سب سے زیادہ ہوئے ۔اس کے بعد مہاراشٹر ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیاہےکہ 70فیصد بچے جنسی اسحصال کے بارے میں نہیں بتاتے 93فیصد جنسی استحصال کی بچیاں دیہی علاقوں کی ہے مقدمہ اور انصاف دھیمی رفتار کی وجہ سے پولیس جانچ عدلیہ کارروائی کی وجہ سے انصاف میں تاخیر ہوتی ہے آبادی کی تناسب سے پولیس اور ججوں کی تعداد میں بھاری کمی ہے 454لوگوں کیلئے ایک پولیس افسر ہونا چاہےئے ۔اقوام متحدہ کے ضابطوں کے مطابق 514افراد کے لئے ایک پولیس آفسر کا ہونا ضروری ہے ہندوستان میں وزارت داخلہ کے 1916کے اعداد شمار کے مطابق 10لاکھ لوگوں کے لئے صرف 19جج ہےں ۔اقوام متحدہ کے پیمانے کے مطابق 50جج ہونا چاہئے ۔سپریم کورٹ نے سرگرمی دکھاتے ہوئے بچیوں سے بد فعلی کے بڑھتے واقعات کا نوٹس لیکر بالکل صحیح کیا اس میں شبہ ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کو حکم ۔ہدایت دینے سے ایسا ماحول بن سکے گا جو بچیوں سے بدفعلی کے بڑھتے واقعات کو کم کرنے میں ماثر ثابت ہوسکے یہ کسی سے پوشید ہ نہیں کہ بد فعلی روک تھام قانون کو سخت بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ان وجوہات کی تہہ تک جانے کی اشد ضرورت ہے جس کے چلتے نربھیا کانڈ کے بعد بد فعلی قوانین کو سخت محض بنانے سے درکار نتیجے نہیں حاصل ہوسکے ۔ان اسباب کی تہہ تک جانے کا احکام صر ف سپریم کورٹ ہی کرسکتا ہے کیونکہ اتنے برس گذرنے کے بعد بھی نربھیا واقعہ میں ملوث قصو رواروں کو سزا تو سنادی گئی لیکن اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوسکا کوئی نہیں جانتا دیش کو دہلانے والے اس گھنونے واقعے کے گناہگاروں کو پھانسی کی سز کب ملے گی ایک بار ایسے واقعے میں شامل دردندوں کو شارع عام پھانسی ہوجائے تو اس کا سب سے زیادہ اثر پڑےگا کیونکہ سپریم کورٹ کو یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ نربھیا واقعے کو سنائی گئی سز ا پر اب تک عمل کیو ں نہیں ہوسکا ؟قانون سخت کرنے کا فائدہ تبھی ہوتا جب ان پر عمل کیا جائے ۔یہ اعداد شمار ایک طرف سماج کے نظریہ پر سوال کھڑا کررہے ہیں تو دوسری طرف جرائم انصاف سسٹم پر بھی انگلیا اٹھ رہی ہیں ۔اسلئے جہاں بدلتے سماج میں اقدار کو بنائے رکھنے کی ضرورت ہے تو وہی جانچ ایجنسیوں اور عدالتوں کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ بچیوں میں سے آبروریزی واقعات کو جلد سے جلد نپٹایاجائے اور انہیں سزاد ی جائے جس سے جرائم پیشہ میں ڈر پید اہو ۔ایسے معاملے روکنے کیلئے خاندان اور سماج کو اپنی ذمہ داری بھی نبھائیں۔اچھے سماج کی تعمیر میں گھر خاندان اور تعلیمی وسائل کے ساتھ سماج کا بھی اہم رول ہوتاہے ۔یہ خو ش آئین بات ہے کہ سپریم کورٹ کے ساتھ مرکزی حکومت بھی انکے تئیں سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں ۔کیونکہ مرکزی حکومت نے حال ہی میں بچیوں سے چھیڑ چھاڑکے واقعات کو روکنے کیلئے پاسکو قانون میں ترمیم کو منظوری دیدی ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ چیف جسٹس کی یہ پہل ضرور رنگ لائے گی اور دیش میں ایسے گھنونے جرائم پر روک لگ سکے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟