بچوں کے سنگین جنسی استحصال پر سزائے موت سے کتنا فرق پڑے گا؟

وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہوئی مرکزی کیبنیٹ نے بدھ کے روز کئی اہم ترین فیصلے لیے ان میں اطفال جنسی جرائم روک (پاسکو)قانون میں ترمیم کو لے کر بے قابو یوجنا پابندی بل کو منظوری بھی ہے جو اس سے متعلق آرڈینینس کی جگہ لے گی ۔پاسکو قانون میں ترمیم کیا جانا کافی اہم ترین قدم ہے ۔مجوزہ ترامیم میں بچوں سے سنگین جنسی استحصال کرنے والوں سے سزائے موت اور نابالغو کے خلاف دیگر جرائم کے لئے سخت سزا کی سنگین سہولت رکھی گئی ہے ۔پچھلے کچھ برسوں سے نا بالغوں کے ساتھ جنسی استحصال اور تشدد کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں اسی کے پیش نظر حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پورن سائیٹوں پر بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کی فحاشی مناظر نے دنیا بھر میں برائیاں بڑھائی ہیں بھارت بھی اس کا شکار ہو رہا ہے ۔کچھ پیسے والوں اور بااثر لوگوں کے ذریعہ اپنی ذہنی چاہت مٹانے کے لئے بچوں کےساتھ غیر انسانی طریقے سے جنسی استحصال کرنے کے واقعات یا باتیں سامنے آنا ہمارے پورے سماج کے لئے باعث تشویش ہونا چاہیے ۔حالانکہ دہلی میں نربھیا کانڈ کے بعد جنسی اذیت سے متعلق قوانین کو کافی سخت کیا گیا تھا تب مانا تو یہ گیا تھا کہ اس سے جرائم کے کرنے سے لوگوں میں خوف پیدا ہوگا اور جنسی تشدد کے واقعات میں کمی بھی آئے گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد سے کم عمر کے بچوں کے جنسی اذیت اور ان کے قتل کے واقعات بڑھے ہیں اس لئے مانگ کی جا رہی تھی کہ پاسکو قانون کو اور سخت بنایا جائے ۔مودی سرکار کا پاسکو قانون کو سخت کرنے کے لئے ترامیم کو منظوری دیا جانا صحیح سمت میں اُٹھایا جا رہا قدم ہے لیکن سرکار ،عدلیہ ،پولس ،و سماج کو بھی ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ،مذوجہ ترامیم میں بچوں کا سنگین جنسی استحصال کرنے والوں کو سزائے اور نا بالغوں کے خلاف دیگر جرائم کے لئے سخت سزا رکھی گئی ہے اس سے اطفال پورن گرافی پر بھی لگام لگانے کے لئے سزار اور جرمانے کے سہولت شامل ہے ۔سخت قانون ایسے جنسی جرائم کے لئے خوف پیدا کرنے کا رول بھی نبھائے گا لیکن قانو ن کافی نہیں ہے بلکہ قانون سخت بنانے کے ساتھ ساتھ عدلیہ ،اور پولس کی جوابدہی بھی ضروری ہے ہمارے دیش میں قانون تو موجود ہے لیکن ساتھ ساتھ اس کو لاگو کرنے کی کاروائی پر جب تک سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا جب تک بچوں پر جرائم تھمنے والے نہیں ہیں ۔مجرم کو سزا دلانے میں برسوں کا وقت لگ جاتا ہے ۔اور اپیلوں کا ایسا سلسلہ چلتا ہے کہ ابھی تک نربھیا کانڈ میں قصور وار قرار دئے جا چکے جرائم پیشہ لڑکوں کو سزا نہیں مل پائی معاملہ عدالتوں میں لٹکا ہوا ہے۔اس قانون میں یہ سہولت شامل کیا جانا بھی ضروری ہےکہ سزا ملنے کے بعد کتنے مہینوں کے اندر عدالتی کارروائی پوری کر لی جائے چاہے ہمیں اس کے لئے اشپیسل فاسٹ ٹریک عدالتوں کو اتنے اختیار دینے پڑیں کہ ایک مرتبہ عدالت ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرلے اور اس میں اپیلوں کا سلسلہ نہیں چلایا جا سکے ۔بے شک کچھ لوگ انسانی حقوق تنظیم والے کہیں کہ جرائم پیشہ کو اپنا بچاﺅ کرنے کا پورا حق ملنا چاہیے یہ صحیح ہے لیکن ایک مرتبہ سزا ہو جائے تو اپیلوں کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔دنیا کے کچھ ملکوں میں ایسی سہولت ہے جب تک ایسے دو چار درندوں کو پھانسی نہیں ہوتی یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے ۔سرکار کے قانون میں ترامیم کا خیر مقدم ہے جب تک پولس اور عدالتی کارروائی کو بہتر نہیں بنایا جاتا یہ تھمنے والا نہیں ہے ۔پولس کبھی کبھی جانچ میں اتنی تاخیر کر دیتی ہے کہ تب تک مجرم ثبوتوں کو ہی ضائع کر دیتا ہے پھر کئی بار رسوخ دار لوگوں کے اثر میں آکر بھی کئی معاملے دبا دیئے جاتے ہیں یا فریقین میں سمجھوتہ کروا کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے ۔ماں باپ کو بھی اپنے بچوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کہاں جاتے ہیں کس کے ساتھ جا رہے ہیں اکیلے نہیں چھوڑنا چاہیے سب کو مل کر اس پیچیدہ مسئلے کو ختم کرنے میں مدد کرنی ہوگی سرکار تو قانو بنا سکتی ہے اسے عمل میں لانے کا کام عام لوگوں کا زیادہ ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟