ورلڈ کپ فائنل'' ایسا نہ پہلے دیکھا نہ سنا چھوڑ گیا کئی سوال

انگلینڈ کو کرکٹ کا خالق مانا جاتا ہے اور ورلڈ کپ کرکٹ کی شروعات بھی یہیں سے 1975میں ہوئی تھی لیکن ورلڈ کپ کا خطاب جیتنے میں انگلینڈ کو 44سال لگ گئے لیکن پچھلے اتوار کو جو انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان فائنل میچ کھیلا گیا ویسا رومانچ اس سے پہلے کبھی کسی فائنل میچ میں دیکھنے کو نہیں ملا ۔پہلی گیند سے 612ویں تک تمام اتار چڑھاﺅ دیکھنے کو ملے باوجود اس کے دونوں ٹیموں کے ایک برابر رن تھے ایک کو ونر اعلان کرنا ہی تھا ۔اس لئے آئی سی سی کے انڈر رول کا سہار ا لیا گیا ۔جو کہتا ہے ورلڈ کپ فائنل میں اگر ٹائی ہوتا ہے تو سپر اوور کھیلا جائے گا ۔شاید یہ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ایسا موقعہ تھا جب سپر اوور بھی ٹائی ہو گیا ۔اور ورلڈ کپ کسے دیا جائے ایک خاص قاعدے سے طے ہوا ۔اگر سپر اوور بھی برابر ی پر چھوٹا تو پھر یہ دیکھا گیا کہ کس ٹیم نے زیادہ چوکے چھکے لگائے ؟پہلے 50اوور کے علاوہ سپر اوور میں لگائی گئی باﺅنڈریز بھی جوڑی جائے گی ۔اس رول سے انگلینڈ 17کے مقابلے 20باﺅنڈریز سے ورلڈ کپ تو جیت گیا لیکن ٹورنامنٹ کی تاریخ میں پہلی بار استعمال ہوئے اس رول پر سوال کھڑے ہونا شروع ہو گئے ورلڈ کپ ونر کے اعلان کے بعد دونوں ٹیموں کے پرستار دو گروپوں میں بٹ گئے ونر ٹیم کی ہمایت کرنے والے پرستاروں کا کہنا تھا کہ قاعدہ تو قاعدہ ہوتا ہے کہ دلیل دے رہے تھے تو ہارنے والی ٹیم کے پرستاراس قاعدے کو غلط ٹھہرا رہے ہیں جس کے تحت سب سے زیادہ باﺅنڈری لگانے والی ٹیم کو ونر اعلان کیا گیا ۔آئی سی سی کے رول بک کے اس قاعدے کی وجہ سے انگلینڈ کی ٹیم پہلی بار ورلڈ کپ ونر بن گئی حالانکہ فائنل مقابلے میں ایک رن بھی خوب تنازعہ میں رہا انگلینڈ کی پاری کے پچاس اوور کی گیند سے یہ تنازعہ جڑا ہوا ہے ۔نیوزی لینڈ کی طرف سے ٹرینٹ بولٹ آخری اوور کی گیند بازی کر رہے تھے آخری اوور میں انگلینڈ کو 15رن بنانے تھے پہلی دو گیندوں پر اسکواٹ سے کوئی رن نہیں بنا تو تیسری گیند پر اسٹاک نے چھکا جڑ دیا اس کے بعد بولٹ نے چوتھی گیند فل ٹاس ڈالی اسٹاکس نے اسے ڈیپ مکڈ کی طرف کھیل دیا ۔مارٹین باوٹیل نے بوال پکڑتے ہی اسے تھرو کیا گواٹل کے تھرو کے باوجود اسٹاکس دوسرے رن کے لئے بھاگ رہے تھے ۔گواٹل نے ڈائرکٹ تھرو کے ذریعہ اسٹوکس کے بلے سے گیند ٹکرایا اور گیند باﺅنڈری کے باہر چلی گئی ۔اپنے ساتھی امپائر سے صلاح کے بعد دوسرے امپائر کمار دھرم سینا (سری لنکا نے بلے بازوں کو چھ رن دے دئے اس فیصلے نے انگلینڈ کی راہ آسان کر دی ۔گیند پر نو رن بنانے کی چنوتی تھی سامنے اب دو گیند رہ گئی تھیں ۔اس چوتھی گیند پر ملے چھ رن کے بارے میں ہی کہا جا رہا ہے کہ اسے پانچ رن ہونا چاہیے تھا ایسا کیوں ہونا چاہیے ایسے معاملوں میں آئی سی سی کے قاعدے 19.8کے مطابق اگر اوور تھرو یا کسی فیلڈر کے چلتے باﺅنڈری ہو گئی تب بلے بازوں کے ذریعہ کئے گئے رن کو بھی جوڑ دیا جانا چاہیے ۔پورے چھ رن کے ساتھ اگر بلے باز تھرو یا ایکٹ کے وقت کوئی رن پورا کرنے کے لئے ایک دوسرے کو کراس کر چکے ہوں تو وہ بھی رن پورا مانا جائے گا ۔قاعدے کا دوسرا حصہ اس میچ کے لحاظ سے بے حد اہم ہے کیونکہ میچ کے ویڈیو فوٹیج میں صاف نظر آرہا ہے کہ گواٹل نے جب ڈائریکٹ تھرو کیا تب بین اسٹوکس اور عادل رشید نے دوسرے رن کے لئے ایک دوسرے کو کراس نہیں کیا تھا حالانکہ بنیادی قاعدے میں تھرو کے ساتھ ایکٹ بھی لکھا ہے جسے اس بات کا امکان بھی بنتا ہے کہ ایکٹ کا مطلب گیند کے بلے سے ٹکرانا یا فلڈر سے ٹکرانا ہو یہ بھی ہو سکتا ہے لیکن قاعدے میں بلے باز کے ایکشن کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔وہیں پچاسویں اوور کی چوتھی گیند پر بنے چھ رن میں جو فاضل رن تھا وہ وجہ رہا جس کے چلتے نیوزی لینڈ ورلڈ کپ گنوا بیٹھا اس سے متفق نہ ہونے والے بھی اس بات سے متفق ہوں گے کہ اس اوور کو تھرو کے موقعہ کے چوکے کے چلتے نیوزی لینڈ کے ہاتھوں سے ورلڈ کپ پھسل گیا ۔سابق آئی سی سی امپائر سائمن ٹافل نے بھی ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں امپائر کی اس غلطی پر کہا کہ انہیں (امپائروں )یہاں پانچ رن دینے چاہیے تھے چھ نہیں ان کا کہنا تھا کہ اوور تھرو کے اس چوکے کے سبب اگلی گیند کا سامنا رشید کو کرنا تھا لیکن یہاں امپائر نے اسے 2پلس 4رن دئے اور اٹساکس نے یہ گیند فیس کی ٹافل نے کہا بد قسمتی سے وقتاََ فوقتاََ اس طرح کی چیزیں ہوتی رہتی ہیں جو کھیل ہم کھیل رہے ہیں وہ ان کا حصہ ہے ورلڈ کپ جیتنے کا سپا پورا کرنے کےلئے انگلیڈ کی ٹیم کو 44سال لگ گئے اس بیچ 11ورلڈ کپ کا سفر انگریزوں نے طے کیا 1979ا و ر 1987اور1992میں تو انگلینڈ فائنل تک پہنچا لیکن کسی بھی انگلش کپتا ن کو ورلڈ کپ کی ٹرافی چھونے کا فخر حاصل نہیں ہوا تھا کرکٹ کے جنم داتا انگلینڈ کا سپنا پورا ہوا بھی تو ایک ایسی ٹیم سے جس کا کپتان آل راﺅنڈر اور سلامی بلے باز اور یہاں تک کہ بڑا گیند باز تک غیر ملکی نزاد تھے ۔کپتان ایمن میگن،اس دیش کے پیدا ہوئے نہیں ہیں ان کی پیدائش آئیر لینڈ میں ہوئی تھی یہاں تک کہ وہ ورلڈ کپ کے لئے کھیلنے سے پہلے آئیر لینڈ کے لئے بین الااقوامی کرکٹ تک کھیل چکے ہیں ۔انگلینڈ کے پاس آج ورلڈ کپ کا خطاب ہے تو اس میں اہم رول سلامی بلے باز جونس شائع کی ہے لیگ دور میں جونسن شائع چوٹل ہوئے تو انگلینڈ کا سیمی فائنل میں پہنچنا مشکل ہو گیا تھا ۔تب شائع نے واپسی کر ٹیم کو بھارت نیوزی لینڈ کے خلاف جیت دلائی ۔شائع کی پیدائش ساﺅتھ افریقہ کے ڈربن شہر میں ہوئی تھی لیکن اس کے والدین انگلینڈ میں بسنے کے بعد انہوںنے انگلینڈ کے لئے 2015میں کھیل کا آغاز کیا ۔یہ تو بین اسٹوک نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ انگلینڈ کے لئے ورلڈ کپ جیتں گے اور اس دیش کو ہرا کر جیتیں گے جہاں کھیل کی پیدائش ہوئی تھی 28سلاہ بین اسٹوک کا جنم نیوزی لینڈ کے شہر کرائشٹ چرچ میں ہوا تھا ۔ان کے ماں باپ نیوزی لینڈ سے آکر انگلینڈ میں بس گئے لیکن اب وہ دونوں نیوزی لینڈ میں ہی رہ رہے ہیں ۔اسٹوکس انگلینڈ میں ہی پلے بڑھے اور وہیں سے کرکٹ کھیل شروع کیا انہوںنے 25اگست 2011کو آئی لینڈ کے خلاف اپنا پہلا ونڈے کھیلا تھا انگلینڈ کو چمپین بنانے میں ان کا ہی اہم رول رہا اگر اس نے وکٹ پر ٹکنے کا جزبہ نہیں دکھایا ہوتا تو نیوزی لینڈ میں ایک وقت اس کا کام کر دیا تھا ۔جب نوجوان آل راﺅنڈر جوفرا آرچرنے سپر اوور ڈالنے کی ذمہ لی تو انہوںنے اعتراف کیا کہ وہ بہت مایوس تھے تبھی اسٹوکس نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ایسا منتر دیا کہ ان کے اندر کا سارا ڈر کافور ہو گیا ۔انگلینڈ ٹیم کے اہم تیز گیند باز جوفرا آرچر جنہوںنے سپر اوور میں اپنی ٹیم کو جتایا ۔وہ کرکٹ کا سپنا لے کر ہی 2016میں پاکستان کے خلاف اسٹوکس کی ٹیم سے اپنا پہلا فسٹ کیٹیگری کا میچ کھیلا تھا ۔ورلڈ کپ شروع ہونے سے کچھ مہینے پہلے قاعدے کے مطابق انگلینڈ میں پانچ برس پورے کرنے کے تبھی انگلینڈ کی قومی ٹیم میں ان کا سیلکشن ہو سکتا تھا وہ انہوںنے پورے کر دئے ورلڈ کپ ٹیم کے حساب سے قسمت بھی ان کے ساتھ رہی ۔پہلی بار ٹیم میں کھیلے جانے پر ورلڈ کپ ونر ٹیم کا حصہ بنے پاکستان کا ورلڈکپ جیتنے کا سپنا ضرور ادھورا رہ گیا لیکن اس دیش سے تعلق رکھنے والے انگلینڈ کو دو کھلاڑیو ںنے یہ کر دکھایا ۔عادل رشید کی پیدائش بھلے ہی انگلینڈ کے یارک شائر میں ہوئی لیکن ان کے پتا پاکستان سے ہیں ایسی ہی کہانی معین علی کی بھی ہے ان کے دادا پاک مقبوضہ کشمیر کے میر پور ضلع سے تھے وہ انگلینڈ میں بس گئے تھے معین کے والد ٹیکسی ڈرائیور اور ماں نرس تھی خیر ورلڈ کپ کرکٹ کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا فائنل میچ نہیں دیکھا ۔اگر انگلینڈ نے ورلڈ کپ جیتا تو نیوزی لینڈ نے دل جیتا ۔یہ میچ کئی دنوں تک تنازعوں میں رہے گا اور اس پر باتیں بھی چلتی رہیں گی آخر میں تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اتوار کو کھیلے گئے اس ورلڈکپ فائنل میں موسم انگلینڈ پر مہربان تھا اسے ورلڈ چمپین بنانا تھا بھارت کا تو اسی بات پر تشفی ہونا پڑا کہ ہم نے پاکستان کو ورلڈکپ میں ہرا دیا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟